Maktaba Wahhabi

183 - 548
ان کے پاس علی رضی اللہ عنہ نیز ایک اور آدمی کو جن کا نام روایتوں میں مذکور نہیں ہے بھیجا، علی رضی اللہ عنہ نے ان سے ملاقات کرکے کہا: تمھیں اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کا وعدہ دیا جا رہا ہے، تم اپنی تمام ناراضیاں بھلا دوگے، چنانچہ وہ اس پر متفق ہوگئے۔ [1]دوسری روایت کے مطابق ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے اور علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے دو تین بار زور آزمائی کی، پھر ان لوگو ں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی، امیر المومنین کے قاصد تم پر کتاب اللہ کو پیش کر رہے ہیں،[2] چنانچہ انھوں نے اسے قبول کرکے ان پانچ چیزو ں پر صلح کرلی: ۱۔ جلاوطن کیے ہوئے کو واپس بلایا جائے۔ ۲۔ محروم کو دیا جائے۔ ۳۔ مال فے کو پورا پورا دیا جائے اور تقسیم میں عدل و انصاف سے کام لیا جائے۔ ۴۔ امین و قوی شخص کو گورنر بنایا جائے۔ ۵۔ ابن عامر کو دوبارہ بصرہ کا گورنر بنایا جائے اور ابوموسیٰ کو کوفہ کا گورنر باقی رکھا جائے۔[3] اور ان چیزوں کو دستاویزی شکل میں لکھا گیا۔ اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر وفد کے ساتھ علیحدہ علیحدہ صلح کی، پھر وفود اپنے علاقوں کی جانب لوٹ گئے۔[4] اس صلح اور بہ حالت رضا مندی تمام لوگوں کی واپسی سے فتنہ برپا کرنے والوں کو معلوم ہوا کہ ان کا منصوبہ ناکام ہو رہا ہے، ان کے گھٹیا مقاصد پر پانی پھر رہا ہے تو انھوں نے فتنے کو بھڑکانے اور زندہ کرنے کے لیے ایک دوسرا منصوبہ بنایا جو عثمان رضی اللہ عنہ اور لوگو ں کے مابین ہونے والی مصالحت کو تار تار کردے، درج ذیل باتوں سے یہ چیز واضح ہوجاتی ہے: اہل مصر جب لوٹ رہے تھے تو ایک اونٹ سوار کو اپنے سامنے آتے اور جدا ہوتے کئی بار دیکھا، گویا اس کا مقصد تھا کہ مجھے پکڑ لو، چنانچہ ان لوگوں نے اسے پکڑ کر کہا: تمھارا کیا معاملہ ہے؟ کہا: مجھے امیر المومنین کی طرف سے گورنر کے پاس قاصد بنا کر بھیجا گیا ہے، انھوں نے خط کھولا تو اس میں ان کو پھانسی دینے، یا قتل کر دینے، یا ہاتھوں اور پاؤں کو کاٹ دینے کا حکم تھا، تووہ دوبارہ مدینہ لوٹ آئے۔[5] عثمان رضی اللہ عنہ نے مذکورہ خط کو لکھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا: دو باتیں ہیں: یا تو تم دو مسلمانوں سے گواہی دلاؤ، یا میں اللہ کی قسم کھاؤں کہ نہ تو میں نے یہ خط لکھا نہ لکھایا ہے، اور نہ مجھے علم ہے، ایسا ہوتا ہے کہ کسی کی جانب
Flag Counter