Maktaba Wahhabi

184 - 548
منسوب خط لکھ دیا جائے اور مہر لگا دی جائے، لیکن ان لوگوں نے اپنے خفیہ مقصد کے پیش نظر عثمان رضی اللہ عنہ کے سچا ہونے کے باوجود ان کی تصدیق نہیں کی۔[1] یہ خط جس کے بارے میں منحرف سرکش باغیو ں کا خیال تھا کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے ہے اور اس پر انھی کی مہر لگی ہے، اسے آپ کا غلام مصر کے گورنر ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ کے پاس صدقہ کے ایک اونٹ پر لے جا رہا تھا، اس میں ان باغیوں کے قتل کا حکم تھا، یہ عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب سراسر جھوٹا اور جعلی خط تھا، اس کی بہت سی دلیلوں میں سے یہ ہے[2] کہ عراقی جب عراق جا رہے تھے تو انھیں اس معاملے کا کیسے پتہ چل گیا، جب کہ ان کے اور مصریوں(جنھوں نے جھوٹے خط کو پکڑا تھا) کے مابین لمبی مسافت ہے، عراقی مشرق میں ہیں اور مصری مغرب میں، اس کے باوجود وہ سب کے سب ایک ہی وقت میں واپس آئے گویا ان کے مابین کوئی مقررہ وعدہ تھا، ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب یہ جعلی خط تیار کرنے والے کسی اور سوار کو کرایہ پر لے کر عراقیوں کے پاس بھیج دیا ہوتا کہ وہ انھیں خبر دے کہ مصریوں نے ایک ایسا خط پکڑا ہے جس میں عثمان رضی اللہ عنہ منحرف مصریوں کو قتل کردینے کا پیغام بھیج رہے تھے۔ اسی سے دلیل پکڑتے ہوئے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: اے کوفہ و بصرہ والو! تمھیں اس خط کا پتہ کیسے چلا جسے مصر والوں نے پکڑا تھا جب کہ تم کافی دور جاچکے تھے، پھر ہماری طرف لوٹ آئے، بلکہ علی رضی اللہ عنہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اللہ کی قسم اس معاملے کی سازش مدینہ ہی میں کی گئی تھی۔[3] یہ پہلا جعلی خط نہیں تھا جسے مجرموں نے تیار کیا تھابلکہ امہات المومنین نیز علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب بہت سارے جعلی خطوط تیار کیے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی کہ انھوں نے لوگوں کو خط لکھ کر عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کا حکم دیا ہے، چنانچہ وہ اس کا انکار کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’اللہ کی قسم یہاں بیٹھنے تک میں نے ان کے پاس کچھ بھی نہیں لکھا ہے۔‘‘[4] اعمش اس سلسلے میں کہتے ہیں: ’’لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خط ان کی جانب منسوب کرکے لکھا گیا تھا۔‘‘[5] مدینہ آنے والے باغیوں کی علی رضی اللہ عنہ پر تہمت تھی کہ انھوں نے ان کے پاس خط لکھ کر مدینہ آنے کی دعوت دی ہے، چنانچہ ان کی تہمت کا انکار کرتے اور قسم کھاتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
Flag Counter