Maktaba Wahhabi

190 - 548
کرام رضی اللہ عنہم ان کو روکنے سے قاصر رہے، چنانچہ انھوں نے آپ کا محاصرہ کرلیا تا آنکہ آپ کو قتل کردیا گیا۔‘‘[1] ان کے بارے میں سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ مختلف علاقوں کے شورش پسند تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ قبائل کے در بدر کردہ لوگ تھے۔‘‘[2] ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ فسادی، خوارج، گمراہ باغی اور سرکش تھے۔[3] امام ذہبی کہتے ہیں کہ وہ ظلم و جفا اور برائی کے سردار تھے۔[4] شذرات میں ابن عماد حنبلی کہتے ہیں کہ وہ قبائل کے اوباش اور گھٹیا لوگ تھے۔[5] محاصرہ سے لے کر ظلماً خلیفہ کے قتل تک ان لوگوں کے تصرفات ان اوصاف پر دلالت کرتے ہیں، انھی کا کھانا پانی روکا جا رہا ہے، جنھوں نے اپنا ذاتی مال (کنواں خریدنے میں) خرچ کیا تھا جس سے سیرابی کے لیے مسلمانوں کومفت پانی ملتا تھا۔[6] مسلمان جب بھی قحط سالی یا کسی دوسری پریشانی سے دوچار ہوتے وہی اپنا بہت سارا مال خرچ کرتے، لوگوں پر جب بھی کوئی مصیبت یا آفت آتی تو آپ ہمیشہ ان کی مدد کرتے تھے۔[7] علی رضی اللہ عنہ محاصرین کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے مذکورہ احوال کو ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں: ’’لوگو! تمھارا یہ کام نہ تو مومنوں کا کام ہے اور نہ ہی کافروں کا، تم ان کا کھانا پانی مت روکو، اہل روم و فارس بھی قیدیوں کو کھانا پانی دیتے ہیں۔‘‘[8] تاریخی واقعات اور صحیح روایات عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف برانگیختہ کرنے اور آپ کے خلاف فتنہ برپا کرنے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بری قرار دیتی ہیں۔[9] تفصیل کے لیے میری کتاب ’’تیسیر الکریم المنان فی سیرۃ عثمان بن عفان‘‘ دیکھی جائے۔[10]
Flag Counter