Maktaba Wahhabi

211 - 548
’’حدثنا بعض المشیخۃ‘‘ اس طرح کی عبارتیں اور ترکیبیں ابن قتیبہ کے اسلوب اور عبارتوں سے بہت مختلف ہیں اور ان کی کتابوں میں وارد نہیں ہیں۔[1] ٭ ابن قتیبہ کا علما کے نزدیک ایک اہم مقام ہے، وہ ان کے نزدیک اہل سنت میں سے اور اپنے علم و دین میں ثقہ ہیں: (( یقول السلفي کان ابن قتیبۃ من الثقات و أہل السنۃ۔ و یقول ابن حزم: کان ثقۃ فی دینہ و علمہ، و تبعہ في ذلک الخطیب البغدادي، و یقول عنہ ابن تیمیۃ: وإن ابن قتیبۃ من المنتسبین إلی أحمد و إسحاق و المنتصرین لمذاہب أہل السنۃ المشہورۃ)) [2] ’’سلفی کہتے ہیں کہ ابن قتیبہ ثقہ اور اہل سنت میں سے تھے۔ ابن حزم کہتے ہیں: اپنے دین و علم میں ثقہ تھے۔ یہی رائے خطیب بغدادی کی ہے۔ ان کے بارے میں ابن تیمیہ کہتے ہیں: ابن قتیبہ احمد واسحاق کی جانب اپنی نسبت کرنے والے اور اہل سنت کی مشہور رایوں کے مؤید تھے۔‘‘ جس شخص کا محقق علما کے نزدیک یہ مقام ہو، کیا وہ ’’الإمامۃ و السیاسۃ‘‘ جیسی کتاب کا مصنف ہوسکتا ہے؟ جس نے تاریخ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب غلط باتوں کو منسوب کردیا ہے۔[3] ٭ ’’الإمامۃ و السیاسۃ‘‘ کے مؤلف نے صحابہ کرام پر سخت تنقید کی ہے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو بزدل اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو حاسد قرار دیا ہے، نیز ذکر کیا ہے کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر اس لیے ناراض ہوگئے کہ انھوں نے خیبر میں مرحب یہودی کو قتل کردیا، اور یہ کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا تھا۔[4] ٭ ’’الإمامۃ و السیاسۃ‘‘ کا مؤلف تینوں خلیفہ ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں صرف پچیس صفحات لکھتا ہے، اور صحابہ کے مابین فتنوں کا ذکر دو سو صفحات میں کرتا ہے، اس طرح مؤلف نے روشن و تابناک تاریخ کو بہت مختصر کردیا ہے اور ایسی جھوٹی تاریخ سے صفحات کو سیاہ کردیا ہے جس کا بہت تھوڑا سا حصہ صحیح ہے۔
Flag Counter