Maktaba Wahhabi

263 - 548
اور نگہبانی کی، یہ تدبیر اللہ غالب و دانا کی ہے۔‘‘ ٭ یہ زندگی جتنی بھی لمبی ہو اس کو ختم ہونا ہے اور متاعِ زندگی جتنی بھی عظیم ہو درحقیقت بہت مختصر اور حقیر ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: (إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ) (یونس:۲۴) ’’پس دنیاوی زندگی کی حالت ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں خوب گنجان ہو کرنکلیں، یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوچکی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے ہیں تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑا، سو ہم نے اس کو ایسا صاف کردیا کہ گویا کل وہ موجود ہی نہ تھی، ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں۔‘‘ ٭ جنت سے متعلق آپ کے خیا لات قرآنی آیات سے مستفاد ہیں۔ چنانچہ یہی تصور آپ کے ذہن و دماغ پر چھایا رہتا تھا، آپ کی سیرت پڑھنے والے پر یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ آپ کے دل و دماغ کی گہرائی میں اللہ کے سامنے حاضری اور اس کے عذاب و عقاب کی سختی کا تصور رچا بسا تھا، کتاب اللہ و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی آپ نے قضا و قدر کا مفہوم سمجھا تھا، اور یہ مفہوم آپ کے قلب وجگر میں پیوست تھا، جیسا کہ ارشاد باری ہے: (قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ) (التوبۃ:۵۱) ’’آپ کہہ دیجیے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کے کوئی چیز پہنچ نہیں سکتی، وہ ہمارا کارساز اور مولیٰ ہے مومنوں کو تو اللہ کی ذات پاک پر ہی بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘ ٭ قرآن کریم ہی سے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو انسان اور شیطان کی کشمکش کی حقیقت کا پتہ چلا، یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دشمن انسان پر ہر چہار جانب سے حملہ آور ہوتا ہے، معصیت الٰہی پر اسے اکساتا ہے اور اس میں نفسانی خواہشات کے جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے، چنانچہ ابلیس لعین کے خلاف آپ اللہ کی مدد طلب کرتے، نتیجتاً
Flag Counter