Maktaba Wahhabi

264 - 548
آپ اپنی زندگی میں اس کے خلاف کامیاب و کامران رہے۔ ٭ آدم علیہ السلام کی غلطی سے آپ نے یہ سبق سیکھا کہ ایک مسلمان کو اپنے رب پر بھروسا کرنا چاہیے، مومن کی زندگی میں توبہ و استغفار کی بڑی اہمیت ہے، حسد اور کبر و غرور سے بچنا ضروری ہے، ساتھیوں کے ساتھ اچھے اسلوب میں ہم کلام ہونا بہت ہی اہم ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: (وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا)(الاسراء: ۵۳) ’’اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیوں کہ شیطان آپس میں فساد ہے، بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حسن رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا اعزاز بخشا، چنانچہ آپ نے ایسی ہی زندگی گزاری، آپ نے اپنے اصول و فروع کو کتاب اللہ وسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا، آپ کا شمار ان ائمہ میں ہوتاہے جو لوگوں کے لیے زندگی کی شاہراہ متعین کرتے ہیں اور جن کے اقوال و افعال اس کی زندگی میں لوگوں کے لیے نمونہ ہوا کرتے ہیں، آپ کو قرآن سے کافی شغف تھا، اسی لیے آپ کے خطبوں کی بنیاد قرآن پر ہی ہوتی تھی، چنانچہ آپ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، منبر پر سورۂ ابراہیم پڑھنا شروع کردی تاآنکہ اسے ختم کردیا۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپ جمعہ کے خطبہ میں سورۂ ق کی تلاوت کیا کرتے تھے، چنانچہ امام مسلم نے ام ہشام بنت حارثہ رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے سورہ ق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن سن کر کیاہے، آپ ہر جمعہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے اسے پڑھتے تھے۔[2] ابن ماجہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر سورۂ ملک کی تلاوت کی، کئی واقعات کے ذریعہ سے آپ نے ہمیں نصیحت کی، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ یا ابوذر رضی اللہ عنہ نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: یہ سورت کب نازل ہوئی؟ میں نے اسے اب تک نہیں سنا تھا، آپ نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔[3] اسی لیے خطبے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بیان کرتے ہوئے امام ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
Flag Counter