Maktaba Wahhabi

271 - 548
ہوئے سنا ہے: ((لَا فَقْرَ أَشَدُّ مِنَ الْجَہْلِ، وَلَا مَالَ أَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ، وَ لَا وَحْدَۃَ أَوْحَشُ مِنَ الْعَجَبِ، وَ لَا مُظَاہَرَۃَ أَوْثَقُ مِنَ الْمُشَاوَرَۃِ، وَ لَا عَقْلَ کَالتَّدْبِیْرِ وَ لَا حَسَبَ کَحُسْنِ الْخُلُقِ، وَ لَا وَرَعَ کَالْکَفِّ، وَلَا عِبَادَۃَ کَالتَّفَکُّرِ، وَ لَا إِیْمَانَ کَالْحَیَائِ، وَ رَأْسُ الْإِیْماَنِ الصَّبْرُ، وَ آفَۃُ الْحَدِیْثِ الْکِذْبُ، وَ آفَۃُ الْعِلْمِ النِّسْیَانُ، وَ آفَۃُ الْحِلْمِ السَّفَہُ، وَ آفَۃُ الْعِبَادَۃِ الْفَتْرَۃُ، وَ آفَۃُ الظَّرْفِ الصَّلَفُ، وَ آفَۃُ الشُّجَاعَۃِ الْبَغْيُ، وَ آفَۃُ الْسَّمَاحَۃِ الْمَنُّ، وَ آفَۃُ الْجَمَالِ الْخُیَلَائُ وَ آفَۃُ الْحُبِّ الْفَخْرُ۔)) ’’جہالت سے بڑھ کر کوئی فقیری نہیں، عقل سے بڑھ کر کوئی مال نفع بخش نہیں، کبر و غرور سے زیادہ وحشت ناک کوئی تنہائی نہیں، مشاورت سے بڑھ کر کوئی دوسری چیز قابل بھروسا نہیں، تدبیر جیسی کوئی عقلمندی نہیں، حسن اخلاق جیسی کوئی قابل عزت چیز نہیں، گناہوں سے باز رہنے جیسا کوئی تقویٰ نہیں، کائنات میں غور و فکر جیسی کوئی عبادت نہیں، حیا جیسا ایمان کا کوئی جز نہیں، ایمان کا اعلیٰ ترین جز صبر ہے، گفتگو کی آفت جھوٹ ہے، علم کی آفت بھولنا ہے، بردباری کی آفت حماقت ہے، عبادت کی آفت سستی ہے، دانائی کی آفت شیخی ہے، بہادری کی آفت بغاوت ہے، بھلائی کی آفت احسان جتلانا ہے، جمال کی آفت گھمنڈ ہے، محبت کی آفت فخر ہے۔‘‘ پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میرے لاڈلے! کسی شخص کو ہرگز حقیر نہ سمجھو، اگر تم سے بڑا ہو تو اسے اپنے باپ جیسا اور اگر تمھارے جیسا ہو تو اسے اپنے بھائی جیسا، اور اگر تم سے چھوٹا ہو تو اسے اپنے بیٹے جیسا سمجھو، مروت کی انھی چیزوں کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے سوال کیا تھا۔ قاضی ابوالفرج فرماتے ہیں: ان مذکورہ باتوں میں بہت ساری حکمتیں اور فوائد مضمر ہیں، ان سے وہ شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو ان کی رعایت کرے، حفاظت کرے، یاد رکھے، ان پر عمل کرے، جو ان پر عمل کرکے، ان کی جانب رجوع کرکے اپنے نفس کو مؤدب و مہذب بنائے، ان پر عمل کرنے سے بھرپور فائدہ حاصل ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے امیر المومنین اور آپ کے اصحاب کی روایت کردہ حدیثوں کے حفظ اور ان میں غور و فکر سے کوئی بھی صاحبِ عقل و علم و حکمت نیز قوم کا سردار مستغنی نہیں، نیک بخت وہ ہے جسے انھیں اپنانے کی توفیق ہوئی، نصیب والا وہ شخص ہے جسے ان کو اپنانے اور ان پر عمل کرنے کا موقع ملا۔[1]
Flag Counter