Maktaba Wahhabi

275 - 548
’’وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے، پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمھاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔‘‘ آسمانوں اور زمین میں، سمندروں کی گہرائیوں اور پہاڑوں کی تہوں میں کوئی بھی ذرہ اللہ سے مخفی نہیں، فرمان الٰہی ہے: (وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ) (الانعام: ۵۹) ’’اور اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں(خزانے)، ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتاہے، جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔‘‘ اللہ کی عظمت و جلال کا شعور اور اس کے اسماء و صفات کی معرفت، بندے میں اللہ کا ڈر اور خوف اور اس کی خشیت پیدا کرتی ہے،[1] فرمان الٰہی ہے: (وَلِلَّـهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ) (الرعد:۱۵) ’’اللہ ہی کے لیے زمین اور آسمان کی سب مخلوق خوشی اور ناخوشی سے سجدہ کرتی ہے اور ان کے سائے بھی صبح و شام ۔‘‘ ٭ حسن بن علی رضی اللہ عنہما مسجد نبوی میں فجر کی نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھے اللہ کے ذکر و فکر میں مشغول رہتے تاآنکہ سورج بلند ہوجاتا، آپ کے پاس سردار قسم کے لوگ بیٹھ کر باتیں کرتے، پھر آپ اٹھ کر امہات المومنین کے پاس جاتے، ان سے سلام کرتے، بسااوقا ت وہ آپ کو تحفہ سے نوازتیں، پھر آپ گھر لوٹ جاتے۔[2] ان نیک بختوں میں سے جن کے لیے فرشتے دعائے مغفرت کرتے ہیں وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھ کر اپنی نماز کی جگہ بیٹھے اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں، جیسا کہ امام احمد کی روایت کردہ یہ حدیث بتلاتی ہے:
Flag Counter