Maktaba Wahhabi

286 - 548
۲۔ اسی طرح نفس انسانی اپنی ہی جنس کے لوگوں پر برتری اور سربلندی چاہتا ہے، اور یہیں سے کبر و حسد وجود میں آتا ہے، لیکن عقلمند اس سربلندی میں دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے جسے دوام و بقا ہے، جس میں اللہ کی خوشنودی و قربت ہے، اور اس سربلندی سے اعراض کرتاہے جسے زوال و فنا ہے، جس سے اللہ کا غضب اور اس کی ناراضی ملتی ہے، بندہ اللہ سے دور ہوجاتا ہے، اور لوگوں کی نگاہوں سے گرجاتا ہے۔ یہ دوسری مذموم سربلندی حقیقت میں روئے زمین میں ناحق سرکشی اور تکبر ہے، لیکن پہلی سربلندی اور اس کی حرص محمود ہے۔ فرمان الٰہی ہے: (خِتَامُهُ مِسْكٌ ۚ وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ) (المطففین:۲۶) ’’جس پر مشک کی مہر ہوگی، سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہیے۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ((إِذَا رَأَیْتَ الرَّجُلَ یُنَافِسُکَ فِی الدُّنْیَا فَنَافِسْہُ فِی الْآخِرَۃِ۔)) ’’جب کسی کو پاؤ کہ وہ دنیا کے بارے میں تم پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے تو تم آخرت کے بارے میں اس پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔‘‘ وہیب بن ورد کا قول ہے: ((إن استطعت أن لا یسبقک إلی اللّٰہ أحد فافعل۔)) [1] ’’اگر تم سے ہوسکے کہ اللہ کے تئیں تم پر کوئی سبقت نہ لے جاسکے تو تم ایسا ہی کرو۔‘‘ آخرت کے باقی رہنے والے درجات، اس کے بلند منازل کی طلب، اس کے اسباب کو اپنا کر اس کے حریص بننے میں تنافس مشروع ہے اور یہ بھی مشروع ہے کہ جو بلند درجات حاصل کرسکتاہے وہ ان سے کم پر قناعت نہ کرے۔ رہی فانی اور زوال پذیر سربلندی جس کے طلب کرنے والے کے حصے میں کل کے دن حسرت وندامت، ذلت و رسوائی ہی آنے والی ہے تو اس سے کنارہ کشی اور اعراض مطلوب ہے۔[2] حسن رضی اللہ عنہ کی سیرت سے اس گہری سمجھ اور عظیم فقہ کا پتہ چلتا ہے، چنانچہ آپ نے مسلمانوں کی خوں ریزی کو روکنے اور آخرت کی طلب میں خلافت و سلطنت کو ترک کردیا، قوت و شوکت کے مالک ہوتے ہوئے بھی آپ نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
Flag Counter