Maktaba Wahhabi

288 - 548
’’الم،اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے، جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز کو قائم کرتے ہیں، اور ہمارے دیے ہوئے (مال) میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ پھر ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: (أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ) (البقرۃ:۵) ’’یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔‘‘ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی عملی تربیت، نبوی اور قرآنی قدروں کا امیر المومنین حسن رضی اللہ عنہ پر کافی اثر تھا، آپ کی شخصیت پر اس کی چھاپ دکھائی دیتی ہے، آپ نے ایسے واضح آثار چھوڑے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جود و سخا اور انفاق جیسے اعلیٰ اخلاق آپ کی شخصیت میں رچ بس گئے تھے، آپ جود و سخا کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، ایسا ہونا ہی تھا اس لیے کہ نبوی خانوادے کے پروردہ تھے، بچپن ہی میں یہ اچھی خصلت آپ میں گھر کر چکی تھی، آپ کی سخاوت و فیاضی کے واقعات ضرب المثل اور بڑے لوگوں کے لیے نمونہ بن گئے۔ [1]ان میں سے چند درج ذیل ہیں: محمد بن سیرین کہتے ہیں: ’’بسا اوقات حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے ایک ہی شخص کو ایک لاکھ دے دیا۔‘‘[2] سعید بن عبدالعزیز کہتے ہیں: ’’حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی بغل میں ایک شخص کو اللہ سے دعا کرتے ہوئے سنا کہ اللہ اسے دس ہزار درہم کا مالک بنا دے، تو آپ گھر گئے اور اس کے پاس مذکورہ مبلغ بھیج دیا۔‘‘[3] لوگ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے مدینہ کے ایک باغ میں ایک غلام کو دیکھا کہ وہ روٹی کا ایک لقمہ خود کھاتا ہے اور وہاں موجود کتے کو ایک لقمہ کھلاتا ہے، آپ نے اس سے پوچھا: ایسا کیوں کر رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں کھاؤں اور اس کو نہ کھلاؤں، چنانچہ حسن رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میرے آنے تک یہیں رہنا، آپ اس کے آقا کے پاس گئے، اسے اس سے خریدا اور وہ باغ بھی خریدا جس میں وہ تھا، پھر اسے آزاد کردیا اور اسے باغ کا مالک بنا دیا، اس پر غلام نے آپ سے کہا: اے میرے آقا! میں نے باغ کو اس کے لیے ہبہ کردیا جس کے لیے آپ نے اسے میرے لیے ہبہ کیا تھا۔[4] ابوہارون عبدی کہتے ہیں: ہم حج کے لیے نکل پڑے، مدینہ پہنچ کر حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس گئے، آپ کو
Flag Counter