Maktaba Wahhabi

289 - 548
اپنے احوال اور سفر سے باخبر کیا، جب ہم آپ کے پاس سے چلے آئے تو آپ نے ہم میں سے ہر شخص کے پاس چار سو درہم بھیج دیا، ہم لوٹ کر آپ کے پاس گئے اور آپ کو اپنی فارغ البالی کے بارے میں بتایا، اس پر آپ نے فرمایا: آپ لوگ میری دی ہوئی چیز کو واپس نہ کریں، اگر میری حالت دوسری ہوتی تو آپ لوگوں کو یہ واپس کرنا ٹھیک تھا، مگر آپ لوگوں کو سفر حج میں زادِ راہ دے رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن فرشتوں کے مابین اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے۔[1] حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے ان حاجیوں کو فارغ البالی کے باوجود یہ مال دیا تھا، اگر وہ محتاج ہوتے تو کیا حال ہوتا، اور جب انھو ں نے یہ بتلایا کہ انھیں ضرورت نہیں ہے تو ان سے مال واپس نہیں لیا، یہ جود و سخا کے بے پایاں جذبے کی دلیل ہے، اس مال سے بہتر زادِ راہ دینا بھی نہ بھولے، چنانچہ آپ نے انھیں یوم عرفہ کی فضیلت یاد دلائی جس دن کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے۔[2] عبداللہ بن عبید اللہ بن عمیر سے مروی ہے کہتے ہیں کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: انھوں نے اپنے اور اللہ کے مابین اپنے مال کو تین مرتبہ تقسیم کیا، یہاں تک کہ آپ چرمی موزہ دے دیتے اور جوتا روک لیتے۔[3] یہ سخاوت کی بڑی نادر مثال ہے، اس لیے کہ حسن رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ اپنے مال کو دو حصوں میں تقسیم کیا، اور ہر مرتبہ آدھے مال کو بطور صدقہ دے دیا۔ بڑی باریکی سے آپ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے تھے، احتساب کا یہ عمل آپ ایک فریضہ سمجھ کر ادا کرتے تھے، چنانچہ آپ چرمی موزہ دے دیا کرتے تھے اور جوتا روک لیتے تھے، جب کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایسا کرکے آپ نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے خیر و احسان کے کاموں میں ایک نمونے کے طور پر پیش کیا۔[4] آپ اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ سخی تھے،[5] آپ کا شمار سخی لوگوں میں ہوتا تھا[6]، آپ کی سخاوت کا واقعہ ہے کہ معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے آپ کے پاس ایک لاکھ بھیجا، تو آپ نے اسے اپنے ساتھ بیٹھنے والوں میں تقسیم کردیا، چنانچہ ان میں سے ہر ایک کو دس ہزار ملا۔[7] آپ کی فیاضی کا واقعہ ہے کہ آپ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس گئے، وہ جاں کنی کے عالم میں وا کرباہ وا
Flag Counter