Maktaba Wahhabi

291 - 548
’’مجھے اچھی خصلتوں سے ایسی ہی خوشی حاصل ہوتی ہے جیسی کہ وطن سے دور رہنے والے کو وطن کی واپسی اور لوگوں سے ملاقات کی۔‘‘ و یہزنی ذکر المروئۃ و الندی بین الشمائل ہزۃ المشتاق ’’مروت و سخاوت جیسی خصلتوں کے تذکرے پر میں ایک عاشق کے مانند جھوم جھوم جاتا ہوں۔‘‘ فإذا رزقت خلیقۃ محمودۃ فقد اصطفاک مقسم الأرزاق ’’جب تمھیں کوئی اچھی عادت نصیب ہو تو سمجھ لو کہ روزی رساں اللہ نے تمھارا انتخاب کیا ہے۔‘‘ فالناس ہذا حظہ مال، و ذا علم، و ذاک مکارم الأخلاق ’’کچھ لوگوں کے نصیب میں مال، کچھ کے نصیب میں علم اور کچھ کے نصیب میں اچھے اخلاق ہوتے ہیں۔‘‘ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو خطاب کیا پھر فرمایا: بلاشبہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے مال جمع کیا ہے، وہ تمھارے مابین تقسیم کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ لوگ آئے تو حسن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا: میں نے فقراء کے لیے جمع کیا ہے، چنانچہ آدھے لوگ چلے گئے۔ سب سے پہلے آپ سے لینے والے اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ تھے۔[1] حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ نفس انسانی کا دنیاوی کشش اور بخل سے چھٹکارا پانے اور رضائے الٰہی کے حصول کی جانب مائل ہونے کی ابتداء اللہ کی راہ میں برابر خرچ کرنے سے ہوتی ہے تاآنکہ وہ مستقل عادت بن جاتی ہے، اس طرح نفس انسانی مال سے بے رغبت ہوجاتا ہے، اس کی محبت دل سے نکل جاتی ہے، اس لیے وہ نہ تو مال کی زیادتی پر خوش ہوتاہے اور نہ ہی اس کی کمی پر رنجیدہ ہوتا ہے، اس فرمان الٰہی کے مطابق: (لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ) (الحدید:۲۳) ’’تاکہ تم اپنی فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہوجایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر اتراؤ اور اترانے والے
Flag Counter