Maktaba Wahhabi

335 - 548
((کُتِبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ نَصِیْبُہُ مِنَ الزِّنَا، مُدْرِکْ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ، فَالْعَیْنَانِ زِنَاہُمَا النَّظْرُ، وَ الْأُذُنَانِ زِنَاہُمَا الْاِسْتِمَاعُ، وَ اللِّسَانُ زِنَاہُ الْکَلَامُ، وَ الْیَدُ زِنَاہَا الْبَطْشُ وَ الرِجْلُ زِنَاہَا الْخَطْأُ، وَالْقَلْبُ یَہْوِیْ وَ یَتَمَنَّی وَ یُصَدِّقْ ذٰلِکَ الْفَرْجُ أَوْ یَکْذِبُہُ۔)) [1] ’’انسان کے لیے اس کے زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے وہ یقینا اسے پانے والا ہے، آنکھوں کازنا (نامحرم عورت کی طرف) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (حرام آواز کا) سننا ہے، زبان کا زنا (ناجائز )کلام کرنا ہے، ہاتھ کا زنا (ناجائز) پکڑنا اور پاؤں کا زنا (ناجائزکام کی طرف) چل کر جانا ہے، اور دل خواہش اور آرزو کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔‘‘ اس طرح معصیت رفتہ رفتہ بندے کے دل میں گھر کرتی اور اس پر اثر انداز ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ اس کی پروا نہیں کرتا، نہ اسے چھوڑ سکتا ہے، بلکہ زیادہ کا طلبگار ہوتا ہے۔[2] اس سلسلے میں ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معصیتیں دوسری معصیتوں کو جنم دیتی ہیں تاآنکہ بندہ ان سے الگ تھلگ نہیں ہوسکتا، وہ معصیتیں لازمی صفت، مستقل عادت اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں، عاصی اگر معصیت چھوڑنا اور اطاعت شعاری کرنا چاہے تو وہ اپنے آپ میں سخت تنگی محسوس کرتا ہے تاآنکہ معصیت کا دوبارہ ارتکاب نہ کرلے، بہت سارے فاسق معصیت کا ارتکاب کسی لذت کے لیے نہیں کرتے ہیں بلکہ اس تکلیف سے بچنے کے لیے جومعصیت کو ترک کرنے کی صورت میں انھیں لاحق ہوتی ہے۔‘‘[3] شرمگاہ کی خواہش کے غالب آنے کے نتائج میں سے شرم و حیا کا ختم ہوجانا ہے، جب خواہش کے غالب آنے پر بندہ گناہوں کے ارتکاب کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ اس کو اس کی پروا ہی نہیں ہوتی کہ لوگ اس کے قبیح افعال سے آگاہ ہو رہے ہیں، بلکہ اس طرح کے لوگ اپنے برے کاموں کو فخر سے بیان کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ شرم و حیا سے بالکل عاری ہوچکے ہیں۔[4] شرمگاہ کی خواہش کو معمولی انحراف سے بچانے کے سلسلے میں کوتاہی رفتہ رفتہ مزید انحراف تک پہنچا دیتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان شہوانیت کا ایسا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کی برائیوں سے نجات مشکل ہوجاتی ہے، آخر میں دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے، اخلاقِ حسنہ سے بالکل عاری ہوجاتا ہے، مزید برآں اسے دیگر نفسانی و جسمانی بیماریاں
Flag Counter