Maktaba Wahhabi

36 - 548
لائے فرمایا: مجھے میرے بچے کو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ ہم نے کہا: حرب۔ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ وہ حسین ہے۔ جب تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی تو میں نے اس کا نام رکھا حرب، توآپ نے فرمایا: نہیں بلکہ وہ محسن ہے، پھر فرمایا: میں نے ان لوگوں کا نام ہارون کے لڑکوں شبر، شبیر، مشبِّر کے ناموں کی طرح رکھا ہے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نومولود پربہت خوش تھے اور لوگ بڑھ بڑھ کر والدین کو مبارک باد دے رہے تھے، سلف صالحین نومولود کے گھر والوں تک خوش خبری پہنچانے میں جلدی کرتے تھے۔ حسن بصری سے ایک لطیف تہنیت منقول ہے: ’’بُوْرِکَ فِی الْمَوْہُوْبِ وَشَکجرْتَ اْوَاہِبَ وَرُزِقْتَ بِرَّہُ وَبَلَغَ أَشُدَّہُ۔‘‘ ’’عطا کردہ نومولود میں اللہ برکت دے آپ عطا کرنے والے اللہ کا شکر ادا کریں، اللہ تعالیٰ اسے مطیع و فرمانبردار بنائے، اور وہ اپنی جوانی کو پہنچے۔‘‘ یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ قبل از اسلام جنگ و جدال اور خونریزی پر دلالت کرنے والے ناموں سے ہٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کا نام رکھا، چنانچہ ان کے لیے بہترین معانی والے ناموں کا انتخاب کیا۔[2] حضرت حسن کا وصف ’’سید‘‘ قرار پایا، انھیں یہ لقب ان کے نانا نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا، جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے: ((اِنَّ اِبْنِیْ ہٰذَا سَیِّدٌ ، وَلَعَلَّ اللّٰہُ أَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔))[3] ’’میرا یہ لاڈلا سردار ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے مابین صلح کرائے گا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریقۂ کار سے زندگی کے ایک اہم اصول کا پتہ چلتاہے وہ یہ کہ اپنے بچوں کے اچھے اور خوبصورت نام رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے، اس میں ماں اور باپ کی رہنمائی ہے کہ وہ عربی زبان اور شرعی نقطۂ نظر سے اچھے لفظ و معنی پر مشتمل نام کو چنیں، تاکہ وہ اچھا ہو، زبان سے ادا کرنے میں اچھا لگے، سننے میں گراں نہ ہو، اچھی صفت اور بہترین معنی کا حامل ہو، شریعت کی نظر میں حرام و مکروہ معانی سے خالی ہو۔ اس کے معنی ہیں کہ مسلمان باپ نام رکھنے سے پہلے اس کے لفظ اور معنی کی صحت پر اچھی طرح غور و فکر
Flag Counter