Maktaba Wahhabi

37 - 548
کرے، کسی صاحب علم و بصیرت سے مشورہ کرے، یہی اچھائی اور حکمت و دانائی کا طریقہ ہے۔ لوگوں کا مشہور قول ہے: ’’والد پر لڑکے کاحق یہ ہے کہ وہ اس کے لیے بہترین ماں کا انتخاب کرے، اس کا اچھا سا نام رکھے، اس کو اچھا ادب سکھائے۔‘‘ علما نے بیان کیا ہے کہ مشروع ناموں کے درجات و مراتب ہیں، چنانچہ وہ مستحب ہوتے ہیں، جائز ہوتے ہیں ان کی ترتیب درج ذیل ہیں: ۱۔ عبداللہ و عبدالرحمن جیسا نام رکھنا مستحب ہے، یہ اللہ کے نزدیک محبوب ترین نام ہیں جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے، ان ناموں کی خصوصیت ہے کہ وہ انسان کے رب کا بندہ ہونے، اس کے محتاج ہونے اوراس کے سامنے اس کی عاجزی و انکساری پر اچھی دلالت کرتے ہیں، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں وارد ہے: ((اِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِکُمْ إِلَی اللّٰہِ عَبْدُ اللّٰہِ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ۔))[1] ’’اللہ کے نزدیک محبوب ترین نام عبداللہ و عبدالرحمن ہیں۔‘‘ اس لیے کہ یہ دونوں نام عبودیت کے وصف پر دلالت کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے اسمائے حسنٰی کو چھوڑ کر ’’اللّٰہ‘‘ اور ’’الرحمن‘‘ ہی کی طرف عبودیت کی اضافت کی ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے: وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا(الجن:۱۹) ’’اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں۔‘‘ اور اس آیت میں ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ (الفرقان: ۶۳) ’’اور اللہ کے بندے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اکٹھا اپنے اس قول میں ذکر کیا ہے: قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ (الاسراء:۱۱۰) ’’کہہ دیجیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر ،جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہما کے بیٹے کا نام عبداللہ رکھا، اور صحابہ میں سے تین سو لوگوں کا نام
Flag Counter