Maktaba Wahhabi

381 - 548
دعوے سے تنازل کرکے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کرکے بیعت کرلی تھی، ان کے چچا زاد بھائی بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے سقیفۂ بنو ساعدہ کی مجلس میں سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔ کسی بھی صحیح روایت سے کسی معمولی یا غیرمعمولی بحران کا ثبوت نہیں ملتا، اور نہ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کے کئی گروہ تھے اور ہر گروہ کا امیدوار خلافت کا متمنی تھا، جیسا کہ بعض مورخین کی خام خیالی ہے، اس کے برعکس اسلامی اخوت جیسی تھی، ویسی ہی باقی رہی، بلکہ اور زیادہ پختہ ہوئی جیسا کہ صحیح روایتوں سے ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی صحیح روایت سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت پر قبضہ کرنے کی سازش کی تھی۔[1] اس لیے کہ وہ ایسا کرنے میں اللہ سے ڈرنے والے تھے۔[2] بعض گمراہ مورخین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خزرج کے سردار ابوقیس سعد بن عبادہ انصاری، خزرجی، ساعدی،مدنی رضی اللہ عنہ [3] مہاجرین کے مخالف تھے، اور غلط طریقے سے خلیفہ بننا چاہتے تھے، اس کے لیے سازشیں کرتے تھے اور تفریق بین المسلمین کا ہر حربہ استعمال کرتے تھے۔ اس آدمی (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو قیس رضی اللہ عنہ کے والد تھے) کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں اور اس رائے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے کارناموں کی بناء پر آپ کا شمار چنندہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا تھا، دنیا آپ کی سب سے بڑی چاہت اور منتہائے علم نہ تھی، بیعت عقبۂ ثانیہ میں آپ اپنے قبیلے کے ذمہ دار تھے، اسی لیے قریش نے مکہ کے قریب آپ کا تعاقب کیا، ان کی مشکیں باندھ کر قیدی بناکر مکہ لے کر آئے، پھر انھیں جبیر بن مطعم بن عدی رضی اللہ عنہ نے چھڑایا اس لیے کہ وہ ان کی مدینہ میں مدد کیا کرتے تھے۔ آپ بدری صحابی تھے،[4] عنداللہ اہل بدر کا مقام و مرتبہ آپ کو نصیب ہوا، آپ کا تعلق جودوسخاوت والے گھرانے سے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گواہی دی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بعد آپ پر اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ پر اعتماد کرتے تھے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خندق کے موقع پر عیینہ بن حصن فزاری کو مدینہ کی تہائی کھجور دینے سے متعلق ان دونوں سے مشورہ کیا، دونوں سعد رضی اللہ عنہ کا جواب پختہ ایمان اور عظیم قربانی کا پتہ دے رہا تھا۔[5]
Flag Counter