Maktaba Wahhabi

454 - 548
میں داخل ہونا یا بغیر حاکم کے جنگ کرنا، لوگوں نے پوچھا: کیا مطلب؟ انھوں نے کہا کہ حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرچکے ہیں، چنانچہ لوگوں نے لوٹ کر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلی۔[1] مذکورہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ مقدمۃ الجیش کے بہت سارے لوگوں نے صلح کی خبر کو سنتے ہی صلح کو قبول کرلیا، لیکن اس میں ان کے قائد قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کے صلح کو قبول کرلینے کا ذکر نہیں ہے، اس کی جانب ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنے اس قول میں اشارہ کیا ہے، حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے مقدمۃ الجیش کے امیر قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت و فرمانبرداری قبول کرلیں، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا، انھوں نے دونوں کی اطاعت و فرمانبرداری کو ترک کردی، اور اپنے ماتحتوں کو لے کر الگ ہوگئے، پھر معاملے پر غور کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلی۔[2] اسی طرح صلح سے متعلق قیس بن سعد رضی اللہ عنہ اور ان کے متبعین کے موقف کے بارے میں ابن ابی شیبہ گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہاشم بن عروہ سے مروی ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں: قیس بن سعد رضی اللہ عنہ ، حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے مقدمۃ الجیش کے امیر تھے، ان کے ساتھ پانچ ہزار فوجیوں نے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اپنا سر منڈوا لیا، اور موت پر باہمی معاہدہ کیا، جب حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت قبول کرلی تو قیس رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: جو تم چاہو گے میں وہی کروں گا، اگر تم چاہو تو تمھیں لے کر جنگ کروں تاآنکہ ہم میں پہلے مرنے والا مرجائے، اور اگر چاہو تو میں تمھارے لیے امان حاصل کروں، انھوں نے کہا: آپ ہمارے لیے امان لے لیں، چنانچہ انھوں نے ان کے لیے امان لے لی، اور یہ کہ انھیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی، اپنے لیے کچھ نہیں لیا۔ جب مدینہ کی جانب کوچ کیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر چلے تو ان کے لیے روزانہ اونٹ ذبح کیا تاآنکہ مدینہ پہنچ گئے۔‘‘[3] مذکورہ روایت میں -باوجودیکہ اس میں واقعات کے تسلسل میں تقدیم وتاخیر ہے- اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ بارہ ہزار فوجیوں پر مشتمل مقدمۃ الجیش میں سے کتنے لوگوں نے قیس رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا تھا۔[4]
Flag Counter