Maktaba Wahhabi

456 - 548
اس امرِ خلافت کو آپ نے میرے حوالے کردیا ہے، غالباً سفیان کے الفاظ ہیں: لوگوں کو اس امرِ خلافت کے بارے میں بتا دیں جسے آپ نے میرے لیے چھوڑ دیا ہے، چنانچہ آپ نے منبر پر کھڑے ہو کر تقریر کی، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی- شعبی کہتے ہیں اور میں سن رہا تھا- پھر فرمایا: سب سے ذہین متقی ہوتا ہے اور سب سے احمق نافرمان ہوتاہے، یہ امرخلافت جس میں میرا اور معاویہ کا اختلاف تھا، اگر میں اس کا مستحق تھا تو امت کی خونریزی روکنے اور اس کی بھلائی کی خاطر میں اسے معاویہ کے لیے چھوڑ دیتا ہوں یا کوئی دوسرا اس کا زیادہ مستحق تھا تو میں اس کو اس کا حق دیتا ہوں۔ {وَإِنْ أَدْرِیْ لَعَلَّہُ فِتْنَۃٌ لَّکُمْ وَمَتَاعٌ إِلَی حِیْنٍo}[1] (الانبیاء:۱۱۱) ’’مجھے اس کا بھی علم نہیں، ممکن ہے یہ تمھاری آزمائش ہو اور ایک مقررہ وقت تک کا فائدہ (پہنچانا) ہے۔‘‘ طبرانی کی طرح اس روایت کو شعبی کے طریق سے ابن سعد[2]، حاکم [3]، ابونعیم اصفہانی[4]، بیہقی[5]اور ابن عبدالبر[6] نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح بیعت کی روایت کو احمد بن حنبل نے انس بن سیرین کے طریق سے نقل کیا ہے۔ کہتے ہیں: جس دن حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی فرمایا: جابلص اور جابلق[7] کے مابین میرے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جس کے نانا نبی ہوں، میں نے امت محمدیہ کا اتحاد چاہا ہے، اور میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، بلاشبہ میں نے معاویہ( رضی اللہ عنہ ) سے بیعت کرلی ہے، مجھے معلوم نہیں، ممکن ہے یہ تمھاری آزمائش ہو اور ایک مقررہ وقت تک فائدہ پہنچانا ہو۔[8] عمرو بن دینار کے طریق سے ابن سعد نے جو روایت نقل کی ہے اس میں ہے: حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! میں اس معاملے کے ابتدائی حصے کو سب سے زیادہ ناپسند کرنے والا تھا، اور اس کے آخری حصے کی میں نے اصلاح کردی ہے، حق والے کو جو اس کا زیادہ مستحق تھا میں نے حق دے دیا، یا وہ میرا حق تھا، جسے میں نے امت محمدیہ کی بھلائی کے لیے قربان کردیا ہے، اے معاویہ! اللہ تعالیٰ نے کسی بھلائی یا برائی کے لیے (جسے وہی جانتا ہے) آپ کو خلافت عطا کی ہے: (وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ) (الانبیاء:۱۱۱)
Flag Counter