Maktaba Wahhabi

497 - 548
اور لوگوں میں آپ کا کردار قابل تعریف تھا، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بہت سے بلند پایہ تابعین نے آپ کی تعریف کی ہے، آپ کی دینداری، علم، عدل و انصاف، حلم وبردباری، اور بہت ساری اچھی عادتوں کی گواہی دی ہے۔[1] ۱۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب انھیں(معاویہ رضی اللہ عنہ کو) شام کا گورنر بنایا تو کہا: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ کو اچھائی سے یاد کرو۔‘‘[2] ۲۔ جنگ صفین سے واپسی کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لوگو! معاویہ کی امارت کو تم ناپسند نہ کرو، ان کے نہ رہنے پر لوگوں کے سرحنظل کے مانند تنوں سے جدا ہوں گے۔‘‘[3] ۳۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑا بزرگ نہیں دیکھا۔ پوچھا گیا: آپ کے والد بھی نہیں ؟ کہا: میرے والد عمر رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہتر تھے، اور معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے بزرگ تر تھے۔‘‘[4] ۴۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ بادشاہت کے لائق میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا۔‘‘ [5] صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا: امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کی کوئی رائے ہے؟ وہ تو صرف ایک ہی رکعت وتر پڑھتے ہیں، جواب دیا: بلاشبہ وہ فقیہ ہیں۔[6] ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو انھوں نے کہا: ابن ہند (معاویہ) کی خوبی اللہ ہی کے لیے ہے، ان کا خاندان کتنا اچھا ہے، ان کی صلاحیت کتنی اچھی ہے، اللہ کی قسم انھوں نے ہماری اور اپنی خاندانی وجاہت کی حفاظت کرتے ہوئے نہ تو منبر سے اور نہ ہی زمین پر کبھی ہمیں برا بھلا کہا۔[7] ۵۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا قول ہے: ’’ابن ہند یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی خوبی اللہ ہی کے لیے ہے، ہم ان سے ڈرتے تھے، شیر اپنے خونخوار پنجوں کے باوجود ان سے زیادہ جری نہیں تھا، اگر ہم انھیں دھوکہ بھی دیتے تو وہ ہمیں چھوڑ دیتے تھے، حالاں کہ کوئی بھی ان سے زیادہ زیرک نہیں تھا (یعنی بے وقوف نہیں تھے) کہ وہ ہم سے دھوکہ کھاجاتے، اللہ کی قسم میری خواہش تھی کہ ہم ان سے فائدہ اٹھاتے جب تک جبلِ ابوقبیس میں کوئی پتھر رہتا، یعنی ہمیشہ ہمیشہ ان سے فائدہ اٹھاتے۔
Flag Counter