Maktaba Wahhabi

498 - 548
۶۔ زہری کا قول ہے: معاویہ رضی اللہ عنہ نے سالہا سال تک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت پر بلا کسی کمی و کوتاہی کے عمل کیا۔ اس سلسلے میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے بہت سے آثار و اقوال ہیں، ہم نے صرف ایک جزء کو ذکر کیا ہے۔اسی طرح سیرت و تاریخ کے بہت سے محققین اور اسماء الرجال کے بہت سے ناقدین نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریف کی ہے: ۱۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے: علما کا اتفاق ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اس امت کے سب سے بہتر بادشاہ ہیں، ان سے پہلے چاروں حضرات علیٰ منہاج النبوۃ خلیفہ تھے، اور آپ پہلے ملک (بادشاہ) تھے، ان کی بادشاہت، بادشاہت اور رحمت تھی۔[1] نیز ان کا قول ہے: مسلمانوں کے بادشاہوں میں کوئی بھی معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں تھا اور کسی بھی بادشاہ کے زمانے کے لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے کے لوگوں سے بہتر نہیں تھے۔[2] ۲۔ ابن کثیر رحمہ اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی سوانح میں لکھتے ہیں: ۴۱ھ میں تمام لوگوں نے آپ کی بیعت پر اجماع کرلیا، اسی سال سے لے کر اپنی وفات کے سال تک خلیفہ رہے، دشمنوں کے علاقوں میں جہاد جاری رہا، اللہ کا کلمہ سر بلند رہا، اطراف و اکناف سے اموالِ غنیمت آتے رہے، آپ کے زمانے میں مسلمانوں کو پورا آرام، عدل و انصاف اور عفو و درگزر حاصل تھا۔ [3] ۳۔ ابن ابوالعز حنفی کا قول ہے: مسلمانوں کے سب سے پہلے بادشاہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ مسلمانوں کے بادشاہوں میں سب سے بہتر ہیں۔[4] ۴۔ ذہبی رحمہ اللہ نے آپ کی سوانح میں لکھا ہے: أمیر المومنین ملک الإسلام[5] (یعنی مسلمانوں کے بادشاہ) تھے نیز انھی کا قول ہے: معاویہ رضی اللہ عنہ ان اچھے بادشاہوں میں سے تھے جن کا عدل و انصاف ان کے ظلم پر غالب تھا۔[6] معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکورہ باتیں ثابت ہیں، اور جس کی یہ سیرت ہو نہایت محال ہے کہ وہ لوگوں کو منبروں سے علی رضی اللہ عنہ جیسے صاحب فضیلت پر لعنت بھیجنے کے لیے ابھارے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سلف صالحین
Flag Counter