Maktaba Wahhabi

533 - 548
دلیل، قابلِ اعتبار اقرار اور یقینی روایت سے یہ بات ثابت نہیں ہے، اس لیے اس طرح کا قول، قول بلا علم ہے۔‘‘[1] حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دلانے کی تہمت اور یہ کہ انھوں نے اس جرم کی تنفیذ کے لیے اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا جن کی بیٹی حسن رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھی، ان باتوں کی ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس انداز سے تردید کی ہے جو تاریخی روایات کی پختہ علمی تنقید اور چھان بین سے متعلق آپ کی صلاحیت و قدرت کا پتہ دیتا ہے، آپ نے فرمایا: ’’اگریہ کہا جائے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے جعدہ کے باپ کو اس کا حکم دیا تھا تو محض گمان ہوگا، اور ارشاد نبوی ہے: گمان سے بچو، بلاشبہ گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے… پھر یہ کہ اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کی وفات ۴۰ھ یا ۴۱ھ میں ہوچکی تھی، اس لیے کہ معاویہ وحسن رضی اللہ عنہما کے مابین صلح میں ان کاکوئی تذکرہ نہیں ملتا جو ۴۱ھ عام الجماعۃ (اتحاد کے سال) میں انجام پایا۔ اشعث رضی اللہ عنہ ، حسن رضی اللہ عنہ کے سسر تھے، اگر وہ موجود ہوتے تو اس میں ان کا تذکرہ ضرور ملتا۔ اور جب وہ خود حسن رضی اللہ عنہ سے دس سال پہلے وفات پاچکے تھے تو کس طرح اپنی بیٹی کو اس کا حکم دیتے۔‘‘[2] ج: امام ذہبی کا قول ہے کہ یہ درست نہیں ہے، کس نے اس چیز کو دیکھا تھا۔[3] د: ابن کثیر کا قول ہے: ’’بعض لوگوں نے روایت کیا ہے کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے جعدہ بنت اشعث کو یہ پیغام بھیجا کہ حسن( رضی اللہ عنہ ) کو زہر دے دو، ان کے بعد میں تم سے شادی کرلوں گا، چنانچہ اس نے ایسا کیا، جب حسن رضی اللہ عنہ وفات پاچکے ، تو اس نے یزید کو پیغام بھیجا، اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم ہم تمھیں حسن( رضی اللہ عنہ ) کے لیے پسند نہیں کرتے تھے، تو کیا اپنے لیے پسند کرلیں گے؟ لیکن میرے نزدیک یہ بات صحیح نہیں، اور ان کے والد معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات بدرجۂ اولیٰ صحیح نہیں ہے۔‘‘[4] ھ: ابن خلدون کا قول ہے: ’’یہ بات جو نقل کی جاتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے انھیں ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ذریعہ سے زہر دلوایا یہ شیعوں کی من گھڑت باتوں میں سے ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ اس سے مبرا ہیں۔‘‘[5]
Flag Counter