Maktaba Wahhabi

118 - 534
۶۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: لوگ جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر متفق ہوئے کسی کی بیعت پر متفق نہ ہوئے۔[1] ۷۔ ابو الحسن الاشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کی امامت ان اصحاب شوریٰ کی قرار داد سے ثابت ہوئی جن کو عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے مقرر کیا تھا، انہوں نے آپ کو منتخب کیا، اور آپ کی امامت سے راضی ہوئے، اور آپ کے فضل و عدل پر اجماع کیا۔[2] ۸۔ ترتیب خلافت کے بارے میں سلف صالحین اور اہل حدیث کے عقیدہ کو بیان کرتے ہوئے عثمان صابونی رحمہ اللہ نے اولاً ابوبکر، پھر عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: پھر عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت شوریٰ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے وجود میں آئی، تمام نے ان کو پسند کر کے خلافت کی باگ ڈور انہیں سونپ دی۔[3] ۹۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام مسلمانوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی، کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹا، جب قوت و طاقت والوں نے بیعت کر لی تو آپ امام قرار پا گئے، ورنہ اگر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما بیعت کر لیتے اور علی رضی اللہ عنہ اور دیگر قوت و طاقت والے صحابہ بیعت نہ کرتے تو امام نہ قرار پاتے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے چھ افراد، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمن رضی اللہ عنہم پر مشتمل شوریٰ تشکیل دے دی اور پھر طلحہ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم نے راضی و خوشی خود اپنا نام واپس لے لیا تو صرف عثمان، علی، اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہم باقی رہے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے حق خلافت سے دست بردار ہوتے ہوئے عثمان و علی رضی اللہ عنہ دونوں میں سے ایک کو خلیفہ نامزد کرنے کی ذمہ داری سنبھالی اور تین دن تک اپنی نیند حرام کر کے سابقین اولین اور دیگر صحابہ کرام اور سپہ سالاران فوج رضی اللہ عنہم سے رائے و مشورہ کرتے رہے، مسلمانوں نے انہیں عثمان رضی اللہ عنہ کو منتخب کرنے کا مشورہ دیا، اور پھر تمام لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی، یہاں نہ ان کو عثمان رضی اللہ عنہ سے کسی چیز کا لالچ تھا اور نہ ان سے کسی چیز کا خوف تھا، اسی لیے بہت سے اسلاف و ائمہ جیسے ابو ایوب سختیانی، احمد بن حنبل اور دار قطنی وغیرہم نے فرمایا: جس شخص نے علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدم کیا اس نے مہاجرین و انصار پر اتہام باندھا اور ان پر عیب لگایا۔ یہ واضح ترین دلیل ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ افضل ہیں کیوں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کو اپنی پسند و مشورہ سے مقدم رکھا۔[4]
Flag Counter