Maktaba Wahhabi

83 - 534
(۵) ذوالنورین رضی اللہ عنہ عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں عہد صدیقی میں ۱۔ مجلس شوریٰ کی رکنیت: خلافت صدیقی میں عثمان رضی اللہ عنہ ان صحابہ اور اہل شوریٰ میں سے تھے جن کی رائے اہم ترین مسائل میں لی جاتی تھی۔ آپ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مرتبہ میں دو میں سے دوسرے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عزیمت و شدائد کے لیے اور عثمان رضی اللہ عنہ رفق و بردباری کے لیے۔ عمر رضی اللہ عنہ خلافت صدیقی کے وزیر اور عثمان رضی اللہ عنہ جنرل سکریٹری تھے، ناموس اعظم اور کاتب اکبر تھے۔[1] آپ کی رائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں مقدم رہتی، چنانچہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارتداد کی تحریک کو کچل دیا تو روم پر چڑھائی کرنے اور مختلف اطراف میں مجاہدین کو روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا، اور اس سلسلہ میں لوگوں سے مشورہ لینا شروع کیا، خرد مندوں نے اپنی اپنی باتیں آپ کے سامنے رکھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں مزید مشورہ طلب کرتے ہوئے فرمایا: آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ اس امت کے خیر خواہ اور مشفق ہیں، لہٰذا آپ کسی بات کو عام مسلمانوں کے لیے مفید سمجھیں تو اس کو کر گزریے، یقینا آپ پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔[2] اس پر طلحہ، زبیر،سعد، ابو عبیدہ، سعید بن زید اور اس مجلس میں موجود تمام مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے کہا: عثمان نے سچ کہا ہے! جو آپ مناسب سمجھیں کر گزریے۔[3] اسی طرح جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اس شخص کو بحرین کا والی مقرر کیجیے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں کے پاس بھیجا تھا، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین والوں کے اسلام اور اطاعت کے ساتھ واپس ہوئے تھے، لوگ ان کو جانتے ہیں اور وہ انہیں اور ان کے ملک کو جانتے ہیں۔ یعنی علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ
Flag Counter