Maktaba Wahhabi

82 - 534
اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سر گوشی وقوع فتنہ کی خبر کے ساتھ دیگر اور امور پر مشتمل رہی ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کسی حکمت کے پیش نظر پوشیدہ رکھنا چاہا جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہ حدیث پاک عثمان رضی اللہ عنہ کے دوران حصار میں قتال کی عدم اجازت کے اصرار کی تفسیر بیان کرتی ہے، اور اسی طرح خلافت سے عدم تنازل کی تفسیر پیش کرتی ہے۔ ان دونوں موقف کے سبب کے سلسلہ میں مؤرخین اور ریسرچ اسکالروں نے اکثر بحث و کرید کی ہے لیکن کسی حل تک نہ پہنچ سکے۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا حادثہ، ان حادثات میں سے ہے جن سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں غیب سے بیان کیا ہے اور علم غیب، صفات الٰہی میں سے ہے، کسی مخلوق کو یہ علم حاصل نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس سے باخبر کیا تھا اور آپ کو لوگوں کو اس سے مطلع کرنے کا حکم فرمایا تھا۔[2] ارشاد الٰہی ہے: قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (188) (الاعراف: ۱۸۸) ’’آپ فرما دیجیے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا، میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
Flag Counter