Maktaba Wahhabi

171 - 534
عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ محسوس کیا کہ مال کی فراوانی خوش حال لوگوں کو صحیح روش سے پھیر دے گی کیوں کہ رعایا کے پاس مال کی فراوانی اور بہتات رعایا کے فساد کا سبب بنتی ہے کیوں کہ وہ اس کو عیش و عشرت اور غلط کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے: وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا (16) (الاسراء: ۱۶) ’’اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوش حال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔‘‘ ۹۔ سیاست فاروقی و عثمانی کے درمیان مقارنہ: مالی امور سے متعلق جس سیاست کا اعلان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے کیا وہ اس عام مالی سیاست سے ہم آہنگ ہے جس کی تنفیذ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے زمام خلافت سنبھالتے ہوئے کی تھی، چنانچہ آپ نے اعلان کیا اور نافذ کیا کہ مالِ عام کے لیے تین ہی شکلیں مناسب ہیں: حق کے ساتھ وصول کیا جائے اور حق میں دیا جائے اور باطل میں روکا جائے۔[1] چنانچہ مال سے متعلق عمرو عثمان رضی اللہ عنہما کی سیاست ایک ہی مرکز نور کے تابع تھی اور وہ اسلام اور اس کے اصول و مبادی اور قواعد کا مرکز تھا۔[2] ۲۔ عثمانی ارشادات لوگوں کے لیے زکوٰۃ کے قواعد و اصول واضح کرتے ہیں عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ تمہاری زکوٰۃ کا مہینہ ہے لہٰذا جس پر قرض ہو وہ اس کو ادا کر دے تاکہ تم اپنی زکوٰۃ نکال سکو اور جس کے پاس نصاب زکوٰۃ تک مال نہ ہو اس سے زکوٰۃ نہیں لی جائے گی الایہ کہ وہ نفلی طور سے دے۔ اور جس سے زکوٰۃ لے لی گئی اس کو دوبارہ زکوٰۃ نہیں ادا کرنا ہے یہاں تک کہ آئندہ سال یہی مہینہ دوبارہ آجائے۔ ابراہیم بن سعد کا بیان ہے کہ اس سے مقصود ماہ رمضان ہے۔[3]اور ابوعبید کا بیان ہے کہ بعض آثار میں یہ بات وارد ہے کہ اس ماہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کا مقصود ماہ محرم ہے۔[4]
Flag Counter