Maktaba Wahhabi

284 - 534
عبدالرحمن باہلی جانتے تھے کہ یہ یاقوت جس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اس پر قبضہ نہ ان کا شخصی حق ہے اور نہ مسلمانوں کے بیت المال کا حق ہے، لہٰذا ان کے نزدیک یاقوت اور مٹی کی حیثیت برابر تھی۔ عبدالرحمن باہلی بڑے کریم اور مہمان نواز، خوددار و غیرت مند، پرہیزگار و متقی اور دین کی گہری بصیرت اور فہم رکھنے والے تھے، اکثر عمر مجاہد و والی کی حیثیت سے گزارنے کے باوجود دنیا کا مال و متاع اپنی ملکیت میں نہ رکھا، اور ۳۲ھ میں بلنجر کے علاقہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔ [1] عبدالرحمن بن ربیعہ الباہلی عہد عثمانی کی فتوحات کے سپہ سالاروں میں سے ہیں، آپ کو صحابیت کا شرف حاصل ہے، آپ نے تاخیر سے اسلام قبول کیا تھا۔ سلمان بن ربیعہ الباہلی رضی اللہ عنہ عہد عثمانی کا ایک ممتاز جرنیل: صحابی جلیل سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہ کوفہ کے سب سے پہلے قاضی ہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شریح سے قبل ان کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا تھا، اور جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دوبارہ کوفہ کے والی مقرر ہوئے تو انہوں نے بھی آپ کو قضا کا منصب سونپا۔ آپ قادسیہ میں شریک ہوئے، وہاں قضا کی ذمہ داری سنبھالی، پھر آپ مدائن کے قاضی مقرر ہوئے، ہر انسان قضاء کی صلاحیت نہیں رکھتا، اور خاص کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کوفہ کا قاضی بننا آسان نہ تھا جب کہ ایک طرف کوفہ بڑے بڑے عرب اور کبار صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھرا تھا اور دوسری طرف مختلف اقوام و قبائل کے لوگ وہاں مخلوط تھے۔ ان حالات میں آپ کا کوفہ کا قاضی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ دین حنیف کے زبردست عالم اور استقامت، عدل و تدین، متوازن قوی عقلیت اور قوی مؤثر شخصیت کے حامل تھے، جس کی وجہ سے سب کے نزدیک قابل اعتماد رہے۔ مدائن کی فتح اور ’’الباب‘‘ کے معرکہ میں مال غنیمت کی تقسیم کی ذمہ داری بھی آپ نے نبھائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی شخصیت ہر طرح کے شکوک و شبہات سے پاک تھی، آپ انتہائی صالح و نیک انسان تھے، ہر سال حج کرتے۔ آپ سے بعض کبار تابعین نے روایت کی ہے۔ آپ بلند اخلاق کی نادر مثال تھے۔ آپ انتہائی کریم و مہمان نواز، خوددار و غیرت مند، وفادار، سچے اور محب خیر تھے، جو اپنے لیے پسند کرتے لوگوں کے لیے بھی وہی پسند کرتے، شہادت کے وقت اپنے لیے کوئی دینار اور گھر نہ چھوڑا جب کہ پوری زندگی جہاد، قضاء اور امارت میں گزری۔ قائدانہ صفات میں اپنے ساتھیوں پر فوقیت رکھتے تھے، چنانچہ جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے حاکم ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیتے ہوئے لکھا کہ کوفہ والوں کا ایک امدادی دستہ اہل شام کے لیے ایسے شخص کی قیادت میں روانہ کرو جس کی قوت و شجاعت اور اسلام تمھیں پسند ہو تو ولید نے بلاتردد اس اہم اور خطر ناک
Flag Counter