Maktaba Wahhabi

168 - 534
زیادہ مکلف نہ کرے۔‘‘ [1] لہٰذا اگر جزیہ وصول کرنے والے ذمیوں کو اذیت پہنچائیں یا ان کی طاقت سے زیادہ ان کو مکلف کریں یا انہیں سزا دیں، یا اس بوڑھے شخص سے جزیہ وصول کریں جس کے پاس کچھ نہیں اور نہ وہ کام کر سکتا ہے یا اس ذمی سے جزیہ لیں جو اسلام قبول کر چکا ہے تو یہ سب ظلم میں شمار ہو گا۔ تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے خلیفہ ثالث عثمان رضی اللہ عنہ نے عاملین خراج کے نام اپنے خطبہ میں مذکورہ ظلم کے عدم ارتکاب کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔[2] اہل ذمہ جو ان زمینوں کی کاشت کاری کرتے ہیں جو اسلامی فتوحات کے نتیجہ میں اسلامی سلطنت کے ہاتھ آئی ہیں وہ جزیہ کے علاوہ خراج بھی بیت المال کو ادا کریں گے۔ عاملین خراج پر واجب ہے کہ وہ خراج کی قیمت مقرر کرتے ہوئے حق کا خیال رکھیں بایں طور کہ ان اسباب و عوامل کا اعتبار کریں جو اثر انداز ہوتے ہیں کیوں کہ ان اسباب و عوامل کو نظر انداز کر دینے سے اہل ذمہ پر ظلم کا وقوع یقینی ہو جاتا ہے۔وہ اسباب و عوامل جو قیمت کی تحدید میں اثر انداز ہوتے ہیں چار ہیں: ۱۔ زمین کی نوعیت، اچھائی و خرابی کے اعتبار سے: اگر زمین اچھی ہے تو پیداوار زیادہ ہو گی اور اگر زمین اچھی نہیں تو پھر پیداوار میں کمی ہو گی۔ ۲۔ غلوں اور پھلوں کی نوعیت: بعض کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور بعض کی کم۔ ۳۔ آب پاشی کی نوعیت: چنانچہ جن زمینوں کی آب پاشی مشینوں سے کی جاتی ہے اس پر اخراجات زیادہ آتے ہیں اور جو زمین بارش یا تالاب وغیرہ سے سیراب ہو جاتی ہے اس پر کم۔ ۴۔ خراج مقرر کرتے وقت اعلیٰ مقدار کو نہ مقرر کرے بلکہ زمین والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑ دے جسے وہ مشکلات و پریشانیوں میں کام میں لا سکیں۔[3] اگر اسلامی سلطنت نے اہل کتاب کے ساتھ کوئی معاہدہ یا مصالحت کی ہے تو اسلامی حکومت اور عاملین خراج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان شرائط کی پاسداری کریں جو معاہدہ و مصالحت میں طے پائی ہیں اور انہی شرائط میں سے وہ شرائط بھی ہیں جن میں جزیہ اور خراج کی قیمت کی تحدید کی گئی ہے۔ کیوں کہ مسلمان جب کوئی عہد و پیمان کرتے ہیں تو اس کو پورا کرتے ہیں۔ [4]
Flag Counter