Maktaba Wahhabi

197 - 534
برطرف کر دیا تھا بلکہ بات صرف یہ تھی کہ آپ بہت سے قضایا میں خود غور کرتے اور ان سے مشورہ لیتے تھے۔ اس اختلاف کا اصل سبب اس سلسلہ میں وارد شدہ روایات کا آپس میں متعارض ہونا ہے۔ امام بیہقی نے اپنی سنن اور امام وکیع نے اخبار القضاۃ میں عبدالرحمن بن سعید سے روایت کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے مجھے خبر دی کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مسجد میں دیکھا کہ جب آپ کے پاس فریقین اپنا مقدمہ لے کر آتے تو آپ ایک فریق سے کہتے جاؤ علی ( رضی اللہ عنہ ) کو بلا لاؤ دوسرے سے کہتے جاؤ طلحہ بن عبیداللہ، زبیر اور عبدالرحمن بن عوف( رضی اللہ عنہم ) کو بلا لاؤ، وہ سب آتے اور مسجد میں بیٹھ جاتے، پھر آپ فریقین سے کہتے اپنا قضیہ بیان کرو پھر ان حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہتے مجھے مشورہ دو اگر یہ لوگ ایسی بات کہتے جو آپ کی رائے کے موافق ہوتی تو اس کے مطابق فیصلہ جاری کر دیتے ورنہ مزید غور و فکر کرتے اور پھر بہ تسلیم و رضا اٹھتے۔ اور یہ معلوم نہیں کہ آپنے کسی کو مدینہ میں قاضی مقرر کیا ہو یہاں تک کہ آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ تاریخ طبری میں عثمان رضی اللہ عنہ کے کارناموں کے بیان میں وارد ہے کہ اس وقت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ منصب قضاء پر فائز تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے زید رضی اللہ عنہ کو منصب قضاء پر باقی رکھا تھا اور اس سے لازم آتا ہے کہ آپ کو مقدمات میں فیصلہ صادر کرنے کی اجازت تھی۔ جب متضاد نصوص کے درمیان جمع و تطبیق ممکن ہو تو پھر اس کو اختیار کرنا اس سے بہتر ہے کہ کسی ایک نص کو بلا مرجح لے لیا جائے اور دوسرے کو نظر انداز کر دیا جائے اور یہاں ان روایات کے درمیان جمع و تطبیق ممکن ہے بایں طور کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے قضاۃ مدینہ کو بعض مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے ان کے منصب پر باقی رکھا لیکن بعض دوسرے مشکل و پیچیدہ مقدمات کو اپنے لیے خاص کر رکھا تھا ان قضاۃ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے آپ فیصلہ کرتے تھے۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ مختلف علاقوں میں قضاۃ مقرر فرماتے جیسا کہ آپ نے کعب بن سور کو بصرہ کا قاضی مقرر فرمایا اور کبھی منصب قضا کو گورنر کے حوالے کر دیتے جیسا کہ کعب بن سور کی معزولی کے بعد بصرہ کے گورنر کو آپ نے حکم دیا کہ وہ گورنری کے ساتھ قضاء کا منصب بھی سنبھالیں۔ اور اسی طرح یعلٰی بن امیہ رضی اللہ عنہ کو صنعا کا گورنر اور قاضی مقرر فرمایا۔ [2] اسی طرح بعض گورنر اپنے صوبوں میں خود قاضی مقرر کرتے تھے، جو گورنر کے سامنے جواب دہ ہوتا تھا اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ کی خلافت میں گورنروں کا اثر و نفوذ قضاۃ سے زیادہ تھا۔[3]
Flag Counter