Maktaba Wahhabi

200 - 534
ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔فیروز کا گزر میرے والد کے پاس سے ہوا اس کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا جس کے دو سر تھے میرے والد نے اس کو لے لیا اور اس سے کہا کہ تم اس سر زمین میں اس کو کیا کرو گے؟ اس نے کہا میں اس سے انسیت حاصل کروں گا، اسی حالت میں اس کو ایک شخص نے دیکھ لیا تو جب عمر رضی اللہ عنہ پر وار کیا گیا تو اس شخص نے کہا کہ اس خنجر کو میں نے ہرمزان کے ہاتھ میں دیکھا تھا، اس نے فیروز کو دیا تھا۔ عبیداللہ کو جب یہ خبر ملی کہ اس نے میرے والد کو قتل کر دیا۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے عبیداللہ کو میرے حوالہ کر دیا اور فرمایا: اے بیٹے یہ تمہارے باپ کا قاتل ہے تم ہم سے زیادہ اس کے مستحق ہو اس کو لے جا کر قتل کر دو، میں چلا، مدینہ کے تمام لوگ میرے ساتھ تھے، وہ سب مجھ سے اس کی معافی طلب کر رہے تھے، میں نے ان سے کہا کیا مجھے اس کو قتل کرنے کا حق ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں اور عبیداللہ کو برا بھلا کہا۔ میں نے اللہ کے واسطے ان کا خیال کرتے ہوئے عبیداللہ کو چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے مجھے اٹھا لیا اور میں ان کے سر اور ہاتھوں پر گھر پہنچا۔[1] اس روایت اور دوسری روایت میں کوئی تضاد نہیں ہے جس میں ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو معاف کر دیا اور ہرمزان کے ورثاء کو شرعی دیت ادا کی۔ کیوں کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فہم یہی تھاکہ ہرمزان کے بیٹے کو قصاص کا حق ہے اور اس نے ان کی سفارش کو قبول کرتے ہوئے عبیداللہ کو معاف کر دیا جیسا کہ ابھی مذکور ہوا ہے اور خلیفہ وقت عثمان رضی اللہ عنہ کی معافی کا تعلق اس سنگین جرم میں تحقیقاتی بورڈ کے حق سے متعلق ہے کیوں کہ اس سلسلہ میں فیصلہ کا حق خلیفہ کو ہے نہ کہ مقتول کے بیٹے کو اور مذکورہ صورت حال میں عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کے حق کو مارا تھا لہٰذا عثمان رضی اللہ عنہ کے عفو و درگزر کی روایت اس حق کے سبب سے ہے اور عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی اس مخالفت نے مجرم اشخاص اور تحریکات جن کا اس عظیم جرم سے تعلق تھا ان کی معرفت کے موقع کو ضائع کر دیا اور اسی طرح خلیفہ وقت عثمان رضی اللہ عنہ کے عفو و درگزر کا تعلق جفینہ اور ابو لولو کی بیٹی سے متعلق ہے جن کا کوئی ولی نہ تھا۔ تاریخی مصادر اور روایات کے اندر کوئی اختلاف نہیں کہ وہ خنجر جس سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا تھا ہر مزان اور جفینہ کے ہاتھ میں واقعہ قتل سے قبل تھا اور اس کو صحابہ میں سے عبدالرحمن بن عوف اور عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما نے دیکھا تھا۔ عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کی روایت بتاتی ہے کہ ابو لولو قاتل اپنے ان دونوں شریکوں کے ساتھ سرگوشی کر رہا تھا اور جب اچانک وہ ان کے پاس پہنچ گئے تو خنجر ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا اور شہادت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ آپ کو جس خنجر سے قتل کیا گیا تھا وہ وہی خنجر تھا جسے دونوں شاہد عبدالرحمن بن عوف اور عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا تھا۔[2] لہٰذا ہرمزان اور جفینہ قتل کے مستحق تھے اور ابو لولو جس نے اپنے آپ کو قتل کر لیا تھا تاکہ اس سازش میں جو
Flag Counter