Maktaba Wahhabi

218 - 534
اس شخص نے عرض کیا بھٹکی ہوئی بکری سے متعلق آپ کا کیا فرمان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ہی لک اولأخیک او للذئب۔)) ’’وہ تمہاری ہو گی یا تمہارے بھائی (مالک) کی ہو گی ورنہ پھر بھیڑیا اٹھا لے جائے گا۔‘‘ اس شخص نے بھٹکے ہوئے اونٹ سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ما لک ولہا معہا سقاء وھا و حذاء ھاترد الماء و تأکل الشجر حتی یلقاھا ربہا۔)) ’’تمھیں اس سے کیا سروکار، اس کے ساتھ خود اس کا مشکیزہ ہے اس کے کھر ہیںپانی پر خود ہی پہنچ جائے گا اور خود ہی درخت کے پتے کھا لے گا اور اس طرحخود اس کا مالک اسے پالے گا۔‘‘[1] استاذ حجوی کا خیال ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ اجتہاد مصلحت مرسلہ پر مبنی تھا کیوں کہ آپ نے دیکھا کہ لوگ بھٹکے ہوئے اونٹوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں تو آپ نے ان کی حفاظت کی خاطر چرواہا مقرر کر دیا جو اس طرح کے بھٹکے ہوئے اونٹوں کو جمع کرے پھر مصلحت عامہ کے پیش نظر ان اونٹوں کو بیچ دیا جائے۔[2] لیکن استاد عبدالسلام سلیمانی نے اس قول کی یوں تردید فرمائی ہے: استاذ حجوی کے قول کو تسلیم کرنا مشکل ہے کیوں کہ مصالح مرسلہ ان مصالح کو کہتے ہیں جن کے اعتبار اور عدم اعتبار کی تنصیص شارع نے نہ کی ہو جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹکے ہوئے اونٹوں سے متعلق حکم صادر فرما دیا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہے لہٰذا یہ معتبر مصلحت ہے جس کی تنصیص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود کر دی ہے، لہٰذا یہ کہنا صحیح نہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے بھٹکے ہوئے اونٹوں سے متعلق جو کیا وہ مصالح مرسلہ میں شمار ہو گا کیوں کہ مصلحت مرسلہ نص کے مقابلہ میں نہیں ہو گی۔ اور جو چیز یہاں سے واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا اجتہاد یہاں پر مصلحت عامہ پر مبنی تھا مصلحت مرسلہ پر نہیں اور اس قضیہ میں اجتہاد کی گنجائش ہے اور یہ ان قضایا میں سے ہے جن میں حالات و ازمان کے تغیر سے حکم متغیر ہو جاتا ہے اور بھٹکے ہوئے اونٹوں کے مالکین کی مصلحت کے پیش نظر اس کے حکم میں تغیر پیدا ہو سکتا ہے۔ بظاہر اس قضیہ میں حکم کی علت ان اونٹوں کی حفاظت ہے خواہ اعیان کی شکل میں ہو یا قیمت کی شکل میں اور دونوں صورتوں میں مصلحت موجود ہے اور بلاشبہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہدف مصلحت عامہ کو برقرار رکھنا تھا کیوں کہ آپ نے دیکھا کہ اونٹوں کو اسی طرح چھوڑ دینا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک تھا اونٹوں کا ضیاع تھا کیوں کہ لوگوں کے اخلاق بدل چکے تھے اور وہ اس طرح کے بھٹکے ہوئے اونٹوں پر ہاتھ صاف کرنے
Flag Counter