Maktaba Wahhabi

240 - 534
کیوں کہ انہوں نے سابق والی قیس بن ہیثم سلمی کو دھوکے سے خراسان سے نکال دیا تھا، بہرحال جب آپ نے قارن سے جنگ کی اور اس کو شکست دے کر بہت سا مال غنیمت حاصل کیا تو ان کے اس کارنامہ سے عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ خوش ہو گئے، اور خراسان کی ولایت پر ان کو مقرر کر دیا۔[1] اس طرح خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ نے مشرق میں تمرد و انقلاب کی تحریکات کا زبردست مقابلہ کیا اور فتوحات کو جاری رکھا۔ ان انقلابات سے مسلمانوں کی قوت متاثر نہیں ہوئی اور نہ خلیفہ کے عزم و حوصلہ میں اس سے کچھ کمی آئی، آپ اس کے لیے انتہائی موزوں تھے۔ آپ نے اس کا مقابلہ عزم و رائے، انتظامی امور میں تیزی، فوجی کمک کو ارسال کر کے اور ہر کام کو اچھی صلاحیت کے حاملین کے سپرد کر کے کیا۔ یہ حقیقت ہر اس شخص پر بالکل عیاں ہو جاتی ہے جو ان حالات کا تاریخ طبری، تاریخ ابن کثیر اور تاریخ کلاعی میں مطالعہ کرتا ہے، اور پھر اس میں کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ان حالات سے نمٹنے کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ ایسے قائدین کا انتخاب فرمانے میں انتہائی کامیاب تھے جنھوں نے فتوحات کی بھرمار لگا دی، یہ بھی معلوم ہے کہ جہاد کی ذمہ داری بڑی گراں تھی اور وہاں پختہ رہنمائی کی شدید ضرورت تھی کیوں کہ جنگی لائنیں پھیلی ہوئی تھیں، فتنے متعدد تھے اور ممالک کے درمیان لمبی مسافت تھی، یہ ساری مشکلات جو عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت کے بعد پیش آئیں اور آپ نے جس عزم و حوصلہ، سرعت و احتیاط اور جواں مروی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ انتہائی قوی شخصیت اور عظیم بصیرت کے مالک تھے، اور عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اسلامی خلافت کو جو کمزوری اور تزلزل لا حق ہوا اس کو ختم کرنے اور اسلامی خلافت کے رعب و دبدبہ کو ثابت کرنے میں اللہ تعالیٰ کے بعد آپ کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ آپ کے عظیم موقف اور شاندار کردار کے ثمرات درج ذیل تھے: ٭ باغیوں کو تابع کرنا اور مسلمانوں کے اقتدار کو ان پر دوبارہ نافذ کرنا۔ ٭ اسلامی فتوحات کو بغاوت زدہ علاقوں سے آگے بڑھانا تاکہ باغیوں کے لیے راہ فرار نہ رہے اور فتنوں اور دسیسہ کاریوں کے دروازے بند ہو جائیں۔ ٭ مستقل ٹھوس فوجی اڈوں کا قیام تاکہ اس کے ذریعہ سے اسلامی سرحدوں اور مقبوضہ علاقوں کی حفاظت کی جا سکے۔ اگر خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کمزور ہوتے اور قرار داد پاس کرنے پر قادر نہ ہوتے تو کیا عظیم فتوحات، حکیمانہ سیاست، مختلف اقالیم کی تنظیم و انصرام ممکن ہوتا؟[2] جیسا کہ بعض ان حضرات کا خام خیال ہے جو رفض و تشیع، مستشرقین اور ان کے نہج پر چلنے والوں کی جھوٹی روایات کا شکار ہیں۔
Flag Counter