Maktaba Wahhabi

255 - 534
اور اس طرح جب اللہ تعالیٰ نے اس عظیم کمانڈر کو شہادت کا شرف عطا کرنا چاہا تو اسے اس کا موقع عنایت فرمایا۔ اس وقت آپ تنہا دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ان کی سراغ رسانی میں مشغول تھے۔ اسی اثناء میں اس ہوشیار عورت نے حقیقت کا پتہ چلا لیا، اس نے دیکھا کہ یہ شخص بظاہر ایک عام تاجر لگتا ہے لیکن اس کی داد و دہش بادشاہوں کی ہے۔ اس طرح اس نے سادگی کے باوجود آپ کے اندر قیادت و سیادت کی علامت پہچان لی، اور اس کو یقین ہو گیا ہو نہ ہو یہ مسلمانوں کا کمانڈر ہے، جس نے اس ملک کے جنگجوؤں کے چھکے چھڑا دیے ہیں۔ اس طرح اس عظیم قائد کی غیر مسلموں کے ساتھ روا داری و سخاوت اور فراخ دلی اس کے راز کو فاش کرنے کا سبب بنی تاکہ اللہ تعالیٰ کا فیصل شدہ امر واقع ہو جائے، اور اس طرح دشمن کو حملہ کرنے کا موقع ملا اور پھر آپ شہادت کے شرف سے مشرف ہوئے۔ اس طرح مسلم قائدین نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر اعلیٰ مثال قائم کی ہے تاکہ عظیم منصوبے ان کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچیں، اور وہ اپنے بعد والوں کے لیے صالح آئیڈیل ثابت ہوں۔ اس الٰہی تائید یافتہ کمانڈر نے سراغ رسانی کی ذمہ داری خود سنبھالی، اس کے لیے اپنے افواج کو مکلف نہیں کیا حالاں کہ تنہا اس ڈیوٹی کی ادائیگی میں دشمنوں کی طرف سے زک پہنچنے اور ہلاکت کا خطرہ تھا، لیکن اس کے باوجود اس نازک و خطرناک ذمہ داری کو خود سنبھالا، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے بلند اخلاق کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ دشمن کی خواتین اور کمزوروں کی طرف شفقت کا ہاتھ بڑھایا اور مال جو انسان کو انتہائی عزیز ہوتا ہے بے دریغ ان کو عطا کیا، اور اس سے قبل ہم دیکھ چکے ہیں کہ اپنے افواج کے ساتھ انتہائی نرم اور صابر رہے، کبھی ان کو سخت وسست نہیں کہا اور نہ ان کی تحقیر کی، اور جب بھی خطرات میں گھرے اچھی فال لی، اپنے ساتھیوں کو برا بھلا نہ کہا اور الجھن و پریشانی آپ کو لاحق نہیں ہوئی جس سے معاملات خراب ہوتے ہیں اور خلل و فساد برپا ہوتا ہے۔ البتہ آپ کے نائب سفیان ازدی ابتداء میں الجھنوں کا شکار ہوئے اور اپنے افواج پر ملامت شروع کی، کیوں کہ انہیں ابھی قیادت کا تجربہ نہ تھا، لیکن جب عبداللہ بن قیس کی لونڈی نے آپ کو اس سلسلہ میں متنبہ کیا تو آپ نے بلاتا مل اپنے سابق کمانڈر اِن چیف کے اسوہ کو اختیار کرنے میں جلدی کی اور کلمہ حق کو قبول کرنے میں کبر و غرور مانع نہ ہوا، اگرچہ ایک معمولی لونڈی نے یہ کلمہ ادا کیا تھا۔ یہ خواہشات نفس اور کبر و غرور سے تجرد و صفائی کی ایک مثال ہے۔ اور یہ عظیم اخلاق و بلند کردار اسلام کی زندگیوں میں عام طور سے پایا جاتا تھا۔ یہی چیزیں عظیم فتوحات، والیان و قائدین کے ملکی انتظام و انصرام میں کامیابی کا سبب بنیں۔ اللہ ہی کے لیے اس دور کے سپوتوں کی خوبیاں ہیں، ان کا ذکر کس قدر بلیغ ہے، کس قدر وہ باریک بیں تھے، اور روئے زمین میں ظالموں و جابروں پر ان کی پکڑ کس قدر سخت تھی۔ روئے زمین میں مظلومین و مساکین کے ساتھ ان کا برتاؤ کس قدر بہترین تھا۔[1]
Flag Counter