Maktaba Wahhabi

273 - 534
ساحل پر اتر کر جنگ کر لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس کو فتح ہوتی ہے، اور اگرچاہو تو سمندر ہی میں جنگ ہو جائے۔ مالک بن اوس کا بیان ہے کہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ سن کر رومیوں نے کبر و غرور میں شور مچایا: ’’پانی، پانی، پانی‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رومیوں کو اپنے بحری تجربہ و مہارت پر کس قدر اعتماد و ناز تھا، اور فتح و نصرت سے متعلق کس قدر پراُمید تھے، کیوں کہ بحری فنون حرب کا قدیم تجربہ و مہارت ان کو حاصل تھی، اس لیے وہ فتح و نصرت کی خواہش سے لبریز تھے خاص طور سے ان کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ مسلمان اس میدان میں ناتجربہ کار اور نئے ہیں۔[1] فریقین نے سمندر کی پشت پر یہ رات گزاری اور مسلمان انتہائی مشکل حالات سے دوچار رہے۔ مسلم سپہ سالار نے اپنے ساتھیوں سے کہا: آپ حضرات ہمیں مشورہ دیں کہ کیا کیا جائے؟ انہوں نے کہا: آج ہمیں موقع دیں تاکہ ہم اپنے امور کی ترتیب کر لیں اور دشمن کا جائزہ لے لیں۔ مسلمانوں نے یہ رات نماز و دعا اور ذکر و تہجد میں گزاری۔ شہد کی مکھیوں کی آواز کی طرح ان کے ذکر و دعا سے موجوں کے تھپیڑوں کے نغمات کے ساتھ سماں بندھ گیا۔ ادھر رومی اپنی کشتیوں میں ناقوس بجانے میں مست رہے، اس طرح لوگوں نے صبح کی۔ قسطنطین نے قتال کرنے میں جلدی کرنے کا ارادہ کیا، لیکن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو صبح کی نماز باجماعت پڑھائی اور اس سے فراغت کے بعد اصحاب حل و عقد سے مشورہ کیا، اور پھر اس مشورہ کے نتیجہ میں انتہائی شاندار منصوبہ پر اتفاق ہوا۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سمندر میں ہوتے ہوئے ہم خشکی کی جنگ لڑیں گے، لیکن یہ مسلمانوں کے لیے کیسے ممکن ہوا؟ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے لشکر کو حکم دیا کہ وہ دشمن کی کشتیوں کے قریب ہو جائیں، وہ قریب ہو گئے یہاں تک کہ ان کی کشتیاں دشمن کی کشتیوں سے جا ملیں، رضاکار جانباز مجاہدین پانی میں اتر گئے اور اسلامی کشتیوں کو رومی کشتیوں سے مضبوط رسوں کے ذریعہ سے باندھ دیا اور اس طرح سمندر کی سطح پر ایک ہزار دو سو کشتیاںایک ساتھ ہو گئیں، ان میں سے ہر دس یا بیس کشتیاں زمینی میدان بن گئیں۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کی صف بندی شروع کی، ان کو نصیحت کرتے اور تلاوت قرآن کی تلقین کرتے، خاص کر سوئرہ انفال کی کیوں کہ اس سورت کے اندر وحدت، ثابت قدمی اور صبر کی تعلیم ہے۔ [2] رومیوں نے قتال کا آغاز کر دیا، انہیں اپنی فتح و نصرت کا کامل یقین تھا اسی لیے تو انہوں نے پانی، پانی کی رٹ لگائی تھی، وہ فتح و نصرت سے پرامید ہو کر مسلمانوں کی کشتیوں پر ٹوٹ پڑے اور پہلی ضرب ہی میں وہ اسلامی بیڑے کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ رومی مسلمانوں کی پہلی صفوں کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے، اور قتال کا کوئی اصول و ضابطہ باقی نہ رہا، طرفین کے لیے جنگ سنگین ثابت ہوئی، خوب خون بہے، پانی کی سطح رنگین ہو گئی اور سمندر سرخ
Flag Counter