Maktaba Wahhabi

340 - 534
کہ کیا اس تعداد میں بنو امیہ میں پانچ افراد گورنری کے منصب کے مستحق نہیں بن سکتے؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو امیہ کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ مناصب عطا فرماتے تھے۔ اور پھر یہ پانچ گورنر ایک وقت میں نہیں تھے بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو گورنر بنایا، پھر انہیں معزول فرما کر ان کی جگہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر فرمایا، اور عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت بنو امیہ میں سے صرف تین افراد گورنر تھے، معاویہ بن ابی سفیان، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح اور عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہم ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ولید بن عقبہ اور سعید بن العاص رضی اللہ عنہما کو ان کے عہدہ سے معزول کیا، لیکن یہ معزولی کوفہ سے ہوئی تھی جہاں سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا تھا، کوفہ کے لوگ کبھی کسی گورنر سے خوش نہ رہے، لہٰذا عثمان رضی اللہ عنہ کا یہاں کسی کو معزول کرنے سے ان پر کوئی طعن لازم نہیں آتا، بلکہ اس شہر پر طعن لازم آتا ہے جہاں سے ان کی معزولی ہوئی تھی۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں بنو امیہ کو عامل مقرر فرماتے تھے، اور آپ کے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو جنھیں بنو امیہ کے ساتھ قرابت داری سے متہم نہیں کیا جا سکتا بنو امیہ کو حکومتی مناصب پر مقرر فرماتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گورنر اور عمال اکثر بنو عبد شمس (بنو امیہ) ہی میں سے تھے، دوسرا کوئی قبیلہ ان کے مقابلہ میں نہ تھا، کیوں کہ وہ تعداد میں بھی دوسروں سے زیادہ تھے اور قیادت و سیادت اور شرف و منزلت کے بھی حامل تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب بن اسید بن ابی العاص اموی رضی اللہ عنہ کو مکہ پر، ابو سفیان بن حرب اموی رضی اللہ عنہ کو نجران پر، خالد بن سعید اموی رضی اللہ عنہ کو بنی مذحج کی زکوٰۃ پر، اور ابان بن سعید اموی رضی اللہ عنہ کو بعض معرکوں پر، اور پھر بحرین پر گورنر مقرر فرمایا۔ لہٰذا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اور انہی کے قبیلہ سے گورنر مقرر کیا جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا، اور اسی طرح آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابی سفیان اموی رضی اللہ عنہما کو شام پر مقرر کیا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کے عہدہ پر باقی رکھا، اور ان کے بعد ان کے بھائی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو ان کی جگہ مقرر فرمایا۔[2] یہاں خودبخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان گورنروں نے جنھیں عثمان رضی اللہ عنہ نے متعین فرمایا تھا اپنی اہلیت ثابت کی یا نہیں؟ ان شاء اللہ ہم ان کے سلسلہ میں اہل علم کی شہادتیں ذکر کریں گے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ راشد ہیں، جن کی اقتداء لازم ہے اور آپ کے افعال و کارروائیاں اس امت کی دستوری دستاویز ہیں، جس طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بعد والوں کے لیے قرابت داروں کو قرابت کرنے سے احتراز کا دستور جاری کیا، اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اہلیت کی صورت میں قرابت داروں کو قریب رکھنے کا دستور جاری کیا۔ جو بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کرے گا وہ ان لوگوں کی انتظامی اور اداری اہلیت میں ادنیٰ شک بھی
Flag Counter