Maktaba Wahhabi

353 - 534
ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لانے والے لوگوں میں سے ہیں… لیکن صد افسوس اکثر ان حضرات کے اسلام پر نقد و جرح کی جاتی ہے، بعض مؤرخین اس زعم کا شکار ہیں کہ یہ لوگ مجبوراً اسلام لائے تھے، اسلام ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا تھا، لیکن ان کا یہ زعم بلاشبہ باطل ہے۔[1] ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے متعلق روایات میں راویوں نے خوب نمک مرچ لگائے ہیں، اور مذہبی و سیاسی افکار و عصبیتوں نے خوب کھیل کھیلے ہیں، کذب و وضع کی دخل اندازی ہوئی ہے، ادبی عبقریت کے اثبات اور روایات وضع کرنے کی قدرت کے امتحان کے لیے اس قصہ کو گھڑنے والوں کے لیے مقابلہ آرائی کا بہترین میدان ثابت ہوا ہے۔[2] بنو مصطلق سے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کے سلسلہ میں جو چیز مانع ہے وہ وہ روایت ہے جو ثقہ راویوں سے اتصال سند کے ساتھ مروی ہے کہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے وقت کم سن تھے، اور اس عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عامل کی حیثیت سے روانہ نہیں کر سکتے، چنانچہ فیاض بن محمد الرقی، جعفر بن برقان سے اور وہ ثابت بن حجاج الکلابی سے اور وہ عبداللہ ہمدانی (ابو موسیٰ) سے اور وہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو مکہ والوں نے اپنے اپنے بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا، آپ نے سب کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا کی۔ مجھے بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، مجھے زعفرانی خوشبو لگائی گئی تھی، آپ نے میرے سر پر ہاتھ نہ پھیرا، چوں کہ میری والدہ نے مجھے زعفرانی خوشبو لگا دی تھی جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ نہ لگایا۔ یہی خوشبو مانع ہوئی۔[3] اس قصہ میں مذہبی عصبیت نے کھیل کھیلا ہے۔ ولید رضی اللہ عنہ اموی عثمانی ہیں اور اس شان نزول میں جس نے ولید رضی اللہ عنہ کا نام گھسیڑا ہے وہ رافضی شیعی محمد بن سائب کلبی ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:’’ کوفی شیعوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔‘‘ اور فرماتے ہیں: ’’کوفہ میں دو کذاب پائے جاتے تھے: ایک کلبی، دوسرا سدی۔‘‘[4] اس قصہ سے ان کا نام جوڑنے کا سبب یہ ہے کہ یہ واقعہ زکوٰۃ کی وصولی سے متعلق ہے، اور ولید رضی اللہ عنہ عہد صدیقی میں قضاعہ کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے مقرر تھے، اور دور فاروقی میں الجزیرہ میں تغلب کی زکوٰۃ پر آپ کی تقرری ہوئی تھی اور شیعی کتب میں ولید رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ کے حوالے سے عثمان رضی اللہ عنہ پر تنقید کی جاتی ہے۔[5] ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ یہ آیت بنو مصطلق کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے، بلکہ ہم اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ اس آیت میں فاسق سے مقصود ولید رضی اللہ عنہ ہیں، کیوں کہ آیت میں ’’فاسق‘‘ کا کلمہ نکرہ واقع ہوا ہے جو عموم اور شمولیت پر دلالت کرتا ہے، کیوں کہ شرط کے سیاق میں وارد ہوا ہے، اور جب نکرہ شرط کے سیاق
Flag Counter