Maktaba Wahhabi

389 - 534
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں اور حوادث کو ذکر کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تربیت دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں صحیح موقف سے کام لیں اور فوری اس کا علاج کر سکیں۔ ٭ ان احادیث میں ان حضرات کی طرف اشارہ ہے جو اس کو بھڑکائیں گے، بسا اوقات یہ ایسے لوگ ہوں گے جو بظاہر ایمان و دین داری سے متصف ہوں گے اور اس کے اندر شدت پائی جائے گی، لیکن ان کی عقلیں منحرف اور الٹی ہوں گی، وہ ادراک و فہم سے عاری ہوں گے۔[1] ٭ یہ فتنے منافقین کو ننگا اور اہل ایمان کے دل کو صیقل کر دیں گے، ان کے ایمان میں اضافہ و ترقی ہو گی، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ ابتلاء کی ایک شکل ہے جس سے نفوس صیقل ہوتے ہیں، مجاہدے کی عادت پڑتی ہے خیر و شر کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اور پھر خیر کی دعوت اور شر سے ممانعت عام ہوتی ہے۔ [2] ٭ ان فتنوں کی خبر دینا حقیقت میں ان کے واقع ہونے، اور ان کے ارتکاب سے سختی کے ساتھ روکنا ہے۔ اس امت کے مومن اور خاص کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب یہ سنیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ ان میں سے بعض سے قتل صادر ہو گا، اور بعض دنیا سے لگ جائیں گے، اور بعض جہاد چھوڑ دیں گے، بعض اور بعض… تو ان کے اندر ان فتنوں سے مقابلہ کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا، اور ہر ایک اس سے بچنا چاہے گا اور برابر خوف زدہ رہے گا کہ کہیں اس ہلاکت میں واقع نہ ہو جائے، پس اس سلسلہ میں خبردار رہنا نجات کا عظیم ذریعہ ہے۔[3] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس اختلاف اور اس امت میں رونما ہونے والے دیگر اختلافات کے سلسلہ میں مختلف مرفوع احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: مختلف سندوں سے یہ مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ ہے، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ افتراق و اختلاف اس امت میں ضرور رونما ہو گا، اس طرح آپ اپنی امت کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ سلامتی چاہے وہ اس سے نجات حاصل کر لے۔[4] ٭ ان فتنوں سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبر دی ہے اس میں انتہائی باریکی کے ساتھ اس سے نجات کے طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انسان کو اگر آپ کتنے ہی اچھے انداز میں اور کتنے ہی زور دار طریقہ سے فتنوں سے ڈرائیں لیکن فتنوں کی نشاندہی نہ کریں اور نہ اس میں پڑ جانے کی کیفیت بیان کریں تو وہ
Flag Counter