Maktaba Wahhabi

395 - 534
بڑا حصہ لے رکھا تھا، لیکن تمام میدانوں اور شعبوں میں یہ روح کار فرما تھی، ہر فرد اس عمل کے لیے تیار بیٹھا تھا، جس وقت بھی اس سے مطالبہ کیا جائے وہاں عسکری اور مدنی بھرتیوں کی ضرورت نہ تھی، بلکہ عقیدہ کی اساس پر وہ ہمہ وقت خود بخود تیار تھے، عقیدہ نے ان کے اندر ہر جانب نشاط برپا کر رکھا تھا۔[1] ٭ یہ عبادت گزار معاشرہ تھا عبادت کی روح ان کے تمام تصرفات میں واضح طور پر کارفرما تھی۔ اللہ کی رضا کے لیے یہ روح صرف فرائض و نوافل کی ادائیگی ہی میں نہیں بلکہ تمام اعمال کی ادائیگی میں موجود تھی، رعایا کی نگہداشت، قرآن و دین کی تعلیم، بیع و شراء، تجارت، بال بچوں کی تربیت، زن و شوہر کے تعلقات غرض کہ زندگی کے ہر میدان میں روح عبادت کار فرما تھی وہ اس کو عبادت تصور کر کے انجام دیتے تھے۔[2] یہ خلفائے راشدین کے دور کے اہم ترین صفات ہیں لیکن جس قدر عہد نبوی سے قریب ہوں یہ صفات قوی تر ہوں گی، اور جس قدر عہد نبوی سے دوری ہو گی اس میں ضعف ہو گا۔ ان اوصاف نے مسلم معاشرہ کو آفاق کی بلندیوں پر قائم کر دیا تھا، اور اسلامی تاریخ میں اس دور کو ایک مثالی دور بنا دیا تھا اور اسی وجہ سے اسلام عجیب تیز رفتاری کے ساتھ پھیلا۔ اسلامی فتوحات کی تحریک فتوحات کی تاریخ میں سریع ترین تحریک رہی ہے، چنانچہ پچاس سال سے کم عرصہ میں اسلام مغرب میں بحر اوقیانوس سے لے کر مشرق میں ہندوستان تک پھیل گیا۔ یہ صورتحال ضبط تحریر میں لانے اور نمایاں کیے جانے کی مستحق ہے، اور اسی طرح مفتوحہ علاقوں میں بلاظلم وجور کے لوگوں کا اسلام میں داخل ہونا بھی۔ یہ اوصاف و خصائص جس سے اسلامی معاشرہ متصف تھا اس صورت حال کا حقیقی سرمایہ تھا، لوگوں نے جب اسلام کو اس عجیب اور خوبصورت و روشن شکل میں معمول بہ پایا تو اس کو پسند کیا، اور ان کی خواہش ہوئی کہ وہ اس دین کو اپنے سینوں سے لگا کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں۔[3] اس دور کی تاریخ کا مطالعہ انسان کے اندر نہ مٹنے والے تاثرات چھوڑتا ہے، اسلام کی حقانیت پرستی اپنے تمام شواہد کے ساتھ حقیقت کی دنیا میں قابل تنفیذ ہے۔ یہ فضا میں لٹکی ہوئی مثالیات نہیں ہے جو صرف تخیلات اور آرزو و تمنا سے متعلق ہوں بلکہ یہ عالم وجود میں واقع ہونے والی مثالیات ہیں، اگر انسان لازم سنجیدگی کے ساتھ کماحقہ کوشش کرے تو پھر ان کی تطبیق انسان کی دسترس میں ہے، اور پھر یہ تاثر کہ جو چیز ایک مرتبہ واقع ہو چکی ہے وہ دوبارہ بھی واقع ہو سکتی ہے کیوں کہ آج کا انسان وہی انسان ہے اور انسان نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ وہ دوبارہ بلندیوں کو طے کرے، اگر عزم صادق ہے تو ضرور طے کرے گا اور غلبہ و نصرت اسے حاصل ہو گی۔
Flag Counter