Maktaba Wahhabi

416 - 534
دیتے ہوئے بلاحجت و برہان اس کے وجود ہی سے انکار کیا ہے، لیکن جن حضرات نے ابن سبا کے وجود کا انکار کیا ہے وہ مستشرقین کا ایک گروہ، عرب ریسرچ اسکالروں کی ایک ٹولی اور اکثر شیعہ معاصرین ہیں۔ تعجب ہے یہ مستشرقین اور ان کے دم چھلے روافض اور مغرب نواز، عبداللہ بن سبا کی شخصیت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک وہمی شخصیت ہے، اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ جہالت و بے حیائی کی اس حد تک یہ لوگ پہنچ چکے ہیں۔ تاریخ و فرق کی کتابیں اس کے ذکر سے بھری پڑی ہیں، اس کے کرتوت و افعال کو راویوں نے نقل کیا ہے اور اس کی خبروں سے آفاق پر ہیں۔ مؤرخین، محدثین، فرق و ملل و نحل کے مصنّفین، طبقات، ادب اور انساب کے مؤلفین جنھوں نے سبائیوں کا ذکر کیا ہے، سب عبداللہ بن سبا کے وجود پر متفق ہیں جس کا ذکر اہل سنت کی کتابوں میں بھی آیا ہے اور شیعوں کی کتابوں میں بھی آیا ہے۔ عبداللہ بن سبا کی شخصیت تاریخی اور حقیقی شخصیت ہے۔ فتنہ کی روایات اور اس میں عبداللہ بن سبا کے کردار کا ذکر صرف تاریخ طبری اور سیف بن عمر تمیمی کی روایات پر منحصر نہیں بلکہ یہ روایات متقدمین کی روایات اور اسلامی تاریخ کے واقعات، اور فرقوں کے آراء و افکار پر نگاہ رکھنے والی کتابوں میں بھری پڑی ہیں، تاریخ طبری کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ اس میں سب سے زیادہ مواد اور تفصیل مذکور ہے۔ بلا سند اور بلا دلیل ان واقعات میں تشکیک پیدا کرنا، ان تمام روایات و اخبار کو سرے سے ملیامیٹ کرنا اور ان تمام مؤرخین و علماء کو نادان و بے وقوف قرار دینا درحقیقت تاریخی حقائق کو جعلی قرار دینا ہے۔ نصوص اور روایات کے انبار کے مقابلہ میں محض عقلی استنتاج کو کبھی صحیح منہج نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ کبھی ایسا رہا ہے۔ کیا منہجیت یہی ہے کہ ان تمام قدیم و جدید ڈھیر سارے مصادر و مراجع سے اعرض کر لیا جائے جو عبداللہ بن سبا کے وجود کو ثابت کرتے ہیں؟[1] عبداللہ بن سبا کا ذکر اہل سنت کی کتابوں میں بہت آیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں: ٭ سبائیوں کا ذکر اعشی ہمدان [2] (متوفی ۸۳ھ) نے اپنے شعر میں کیا، چنانچہ اس نے مختار بن ابی عبید ثقفی اور اس کے کوفہ کے معاونین کی ہجو کرتے ہوئے اس وقت یہ شعر کہا جب کوفہ کے شرفاء کے ساتھ بھاگ کر بصرہ پہنچا:
Flag Counter