Maktaba Wahhabi

44 - 534
کامل سے تھا جس میں شک کا گزر نہیں تھا۔[1] آپ نے اس جدید دعوت سے متعلق اچھی طرح اور پورے سکون کے ساتھ غور و فکر کیا جو مسائل کے حل میں آپ کی عادت تھی آپ نے اپنے غور و فکر کے نتیجہ میں دیکھا کہ یہ رذائل سے نجات اور فضائل کے حصول کی دعوت ہے، توحید کی دعوت اور شرک سے انتباہ ہے، عبادت کی دعوت اور غفلت سے تنبیہ، اخلاق فاضلہ کی ترغیب اور اخلاق رزیلہ سے ترہیب ہے۔ پھر آپ نے اپنی قوم کو دیکھا وہ بتوں کی پوجا کرتے، مردار کھاتے، پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے، حرام چیزیں، خوں ریزی وغیرہ کو حلال سمجھتے تھے۔[2] اس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صادق و امین تھے، ہر چیز کے حامل اور ہر طرح کے شر سے دور تھے، کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی خیانت نہیں کی اور پھر آپ لوگوں کو اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی دعوت دے رہے ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک اور نماز، روزہ کے داعی ہیں اور اللہ کے ماسوا کی عبادت سے منع کر رہے ہیں۔[3] لہٰذا آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا، اور اپنے ایمان میں قوت و ہدایت، صبر و استقامت، عظمت و رضا، عفو و کرم، احسان و رحم، جود و سخا کے ساتھ آگے بڑھے، اہل ایمان کے ساتھ مواساۃ اور کمزوروں سے تعاون کرتے رہے یہاں تک کہ اسلام کی جڑیں مضبوط ہو گئیں۔[4] آپ کی خالہ سعدیٰ بنت کریز نے آپ کے اسلام سے متعلق یہ اشعار کہے ہیں: ہدی اللّٰه عثمانا بقول الی الہدی وارشد واللّٰه یہدی الی الحق ’’میری ہدایت کی دعوت سے اللہ نے عثمان کو ہدایت دی اور انہیں خیر کی طرف رہنمائی کی، اور اللہ ہی حق کی ہدایت دیتا ہے۔‘‘ فتابع بالرأی السدید محمدا وکان برأی لا یصد عن الصدق ’’چنانچہ درست رائے کے ساتھ آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور کسی بھی رائے میں سچ بات کہنے سے ہرگز گریز نہ کرتے تھے۔‘‘ وانکحہ المبعوث بالحق بنتہ فکان کبدر مازج الشمس فی الافق
Flag Counter