Maktaba Wahhabi

453 - 534
رکھتے ہیں، اور ان کی پوری تفصیلات اکٹھی کرو، واضح رہے کہ ان دونوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے تادیبی سزا مل چکی تھی لیکن اب حق کے لیے یہ ڈٹ گئے تھے اور اپنے اندر اس کی وجہ سے کینہ و بغض نہیں رکھا تھا۔ جب بلوائیوں نے ان دونوں کو دیکھا تو ان پر اعتماد کر لیا اور اپنے پورے ارادے کی تفصیل ان دونوں سے بیان کر دی، ان دونوں نے ان سے دریافت کیا کہ مدینہ والوں میں سے کون تمہارے ساتھ ہیں؟ انہوں نے کہا: تین اشخاص۔ ان دونوں نے کہا: کیا ان کے علاوہ اور کوئی؟ انہوں نے کہا: اور کوئی نہیں۔ ان دونوں نے ان سے کہا: تم کیسے کرنا چاہتے ہو؟ ان لوگوں نے ان دونوں سے اپنی سازش اور مجوزہ منصوبہ کی پوری تفصیل بیان کر دی، اور کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ عثمان کے سامنے وہ باتیں پیش کریں جو ہم نے لوگوں کے ذہن و دماغ میں بٹھا رکھی ہیں اور پھر جب ہم واپس ہوں تو لوگوں سے کہیں کہ ہم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے ان باتوں کو پیش کیا تو نہ تو وہ نکلے اور نہ ان باتوں سے تائب ہوئے، پھر ہم حج کے بہانے مدینہ واپس آئیں اور ان کا محاصرہ کر کے ان کو معزول کر دیں اور اگر نہ مانیں تو ان کو قتل کر دیں۔ یہ دونوں آدمی ساری معلومات حاصل کر کے عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس واپس پہنچے اور انہیں مطلع کیا۔تفصیلات سن کر عثمان رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور فرمایا: اے اللہ! تو انہیں سلامت رکھ! اگر تو نے ان کو سلامت نہ رکھا تو بدبختی کا شکار ہو جائیں گے۔ پھر آپ نے کوفیوں اور بصریوں کو بلوایا اور اعلان کرایا ’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ یہ لوگ آپ کے پاس منبر سے قریب تھے، اور صحابہ کرام اعلان سن کر مسجد میں جمع ہو گئے اور ان کو گھیر لیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد مدینہ والوں کو ان کے سلسلہ میں معلوم شدہ تفصیلات بتلائیں کہ یہ کس لیے آئے ہیں، اور ان کے ارادے کیا ہیں، اور بتلایا کہ یہ لو گ آپ کے خلاف خروج کرنے کے لیے اپنے اعتراضات کو مؤکد، اور پھر خلیفہ کی برطرفی یا قتل چاہتے ہیں اور پھر وہ دونوں اشخاص جن سے سبائیوں نے اپنی تفصیلات بیان کی تھیں کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے شہادت دی۔ تمام مسلمانوں نے یک زبان ہو کر کہا: امیر المومنین! انہیں قتل کر دیجیے کیوں کہ یہ امیر المومنین کے خلاف خروج کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے اس مطالبہ کو رد کر دیا، کیوں کہ یہ لوگ بظاہر مسلمان، اور ان کی رعیت میں سے تھے، آپ یہ پسند نہیں کر سکتے تھے کہ لوگ یہ کہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مخالف مسلمانوں کو قتل کر دیا، اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ نے اس مطالبہ کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا: ’’ہم انہیں قتل نہیں کریں گے بلکہ ان سے درگزر کریں گے، اور اپنی طاقت بھر ان کی رہنمائی کریں گے کسی بھی مسلمان کو ہم قتل نہیں کریں گے، اِلا یہ کہ وہ ایسی حد کا ارتکاب کرے جو قتل کو واجب کرتی ہو یا کوئی مرتد اور کافر ہو جائے۔‘‘[1]
Flag Counter