Maktaba Wahhabi

459 - 534
عہد و پیمان کو پورا کیا، پوری مدت خلافت میں اس پر قائم رہے یہاں تک کہ اپنے پاکیزہ خون میں لت پت جام شہادت نوش کر لیا۔[1] علامہ محب الدین خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اپنے نفس سے دفاع یا قضا و قدر پر راضی و رضا سے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ کے موقف کے تعلق سے جو اخبار مروی ہیں وہ مجموعی طور سے اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ فتنہ و فساد کو ناپسند کرتے تھے، اور مسلمانوں کے خون سے متعلق اللہ سے ڈرتے تھے الا یہ کہ آخری وقت میں آپ کی خواہش تھی کہ کاش ان کے پاس ایسی فوجی قوت ہوتی جس سے باغی خوف زدہ ہوتے اور اپنی بغاوت سے باز آجاتے، اور اس نتیجہ تک پہنچنے کے لیے اسلحہ کے استعمال کی ضرورت نہ پڑتی۔ فتنہ کی انتہا تک پہنچنے سے قبل معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے پیش کش کی تھی کہ وہ شامی فوج کا ایک لشکر ان کے پاس بھیج دیں جو ان کے اشارہ کے انتظار میں رہے، لیکن آپنے دارالہجرۃ مدینہ کے باشندوں پر فوج کے ذریعہ سے تنگی پیدا کرنے سے انکار کیا، آپ کو گمان نہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت کی جرأت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ اللہ کی راہ میں مہاجر اوّل کا خون بہانے کے لیے وہ ٹوٹ پڑے گی۔ جب باغی آپ کے خلاف بھیڑیے بن گئے اور آپ کو یقین ہو گیا کہ دفاع کی صورت میں مسلمانوں کا خون رائیگاں ہو گا تو آپ نے ان تمام لوگوں کو جن پر آپ کی سمع و اطاعت لازم تھی، حکم دیا کہ اپنے ہاتھوں اور اسلحہ کو روک لیں۔ اس سلسلہ میں آپ کے دوست و دشمن سب کی کتابیں و مراجع اخبار و روایات سے بھری پڑی ہیں کہ اگر میدان میں کوئی منظم قوت ظاہر ہوتی، اور ان باغیوں کے سامنے ڈٹ جاتی، اور ان کی جاہلیت اور تکبر و غرور کے مقابل کھڑی ہوتی، تو عثمان رضی اللہ عنہ کو اس سے راحت و سرور حاصل ہوتا اس کے باوجود کہ آپ کو مکمل اطمینان و یقین تھا کہ آپ کی موت شہادت کی شکل میں ہی آئے گی۔ 
Flag Counter