Maktaba Wahhabi

47 - 534
نصف نصف دینار کے عوض سب سوار ہو گئے۔ جب قریش کو ان کے سلسلہ میں خبر ملی تو جلدی سے ساحل سمندر پہنچے لیکن دونوں کشتیاں روانہ ہو چکی تھیں۔[1] حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا شرف پہلی اور دوسری مرتبہ جن نفوس کو حاصل ہوا ان میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما اور ان کی زوجہ محترمہ رقیہ رضی اللہ عنہا شامل ہیں۔ یہ لوگ رجب۵ نبوی میں حبشہ پہنچے، وہاں انہیں امن و امان اور عبادت کی آزادی حاصل ہوئی، قرآن پاک نے ہجرت حبشہ کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (النحل: ۴۱) ’’جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے ہم انہیں بہتر سے بہتر ٹھکانا دنیا میں عطا فرمائیں گے اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے کاش !لوگ اس سے واقف ہوتے۔‘‘ امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہاں مقصود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن پر مکہ کے مشرکین نے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے اور انہیں مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ ان کا ایک گروہ حبشہ جا پہنچا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مدینہ میں جائے قرار عطا فرمایا، اور ان کے لیے اہل ایمان میں سے انصار بنائے۔[2] ارشاد الٰہی ہے: قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَأَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (10) (الزمر: ۱۰) ’’کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ ہے، صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مقصود جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور وہ حضرات صحابہ ہیں جنھوں نے ان کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔[3]
Flag Counter