Maktaba Wahhabi

49 - 534
کے مقربین، اس کے اہل و عیال اور خاندان پیش پیش ہوں۔ اگر اس کے برعکس قائد کے مقربین اور خواص خطرات کے موقع سے دور رکھے جائیں اور دوسرے لوگوں کو پیش پیش رکھا جائے تو یہ چیز نبوی منہج کے بالکل بر خلاف ہے۔[1] اسی لیے جب ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو اپنے اقرباء کو اسلامی فوج میں پیش پیش رکھا۔ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو افریقہ کو فتح کرنے کے لیے آگے بڑھایا، عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو مشرق کی فتوحات میں پیش پیش رکھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کو سمندری فتوحات پر روانہ کیا، ان کے ساتھ ان کی بیوی بھی تھیں، ان کی تفصیلات فتوحات کے بیان میں آئیں گی۔ ۴۔ اس امت میں عثمان رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔[2]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صحبہما اللّٰہ، إن عثمان لأول من ہاجر إلی اللّٰہ بأہلہ بعد لوط۔))[3] ’’ان دونوں کے ساتھ اللہ ہو ،یقینا عثمان، لوط علیہ السلام کے بعد پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی ہے۔‘‘ جب یہ افواہ پھیل گئی کہ مکہ والے اسلام لے آئے ہیں اور یہ بات مہاجرین حبشہ کو پہنچی تو وہ لوگ مکہ کے لیے روانہ ہو گئے اور جب مکہ سے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی چنانچہ بعض اہل مکہ کی ضمانت میں مکہ میں داخل ہوئے، ان واپس آنے والوں میں عثمان اور رقیہ رضی اللہ عنہما بھی تھے۔[4] اس کے بعد آپ نے مکہ میں اقامت اختیار کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا۔ آپ نے جب سے اسلام قبول فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کو لازم پکڑا صرف ہجرت کے وقت جدائی اختیار کی، اور وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے یا پھر ایسی مہم کے موقع پر جہاں آپ ہی موزوں تھے آپ کا بدل کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ دیگر خلفائے راشدین کی طرح اس سلسلہ میں آپ کی بھی حالت رہی، گویا کہ یہ خلفائے راشدین کی ان بنیادی خصوصیات میں ہے جس کی بنیاد پر یکے بعد دیگرے خلافت کے مستحق بنے۔ [5] ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا تعلق دعوت سے پہلے ہی سال سے مضبوط رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے خاص و عام امور آپ سے فوت نہ ہوئے یا آج کی اصطلاح میں یوں کہہ لیجیے کہ اسلامی سلطنت کی تاسیس کے اعمال میں سے کسی عمل سے آپ پیچھے نہ رہے۔[6]
Flag Counter