Maktaba Wahhabi

60 - 534
تھے آپ کو دفن کر کے جب لوگ واپس آرہے تھے تو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہو کر فتح و نصرت کا مژدہ جانفزا لے کر مدینہ پہنچے، اور لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی اور مشرکین کے قتل و قید کی خوشخبری سنا رہے تھے۔ مسلمانانِ مدینہ کے چہروں پر فتح و نصرت کی ان خبروں سے خوشی امڈ آئی، عثمان رضی اللہ عنہ بھی انہی لوگوں میں سے تھے لیکن رقیہ رضی اللہ عنہا کے فراق کا غم چھپا نہ سکے۔ مدینہ واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر ملی، آپ بقیع تشریف لے گئے، ان کی قبر پر کھڑے ہو کر آپ نے بخشش و غفران کے لیے دعا کی۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر سے بزدلی یا راہ فرار اختیار کرتے ہوئے پیچھے نہیں ہوئے تھے جیسا کہ اہل بدعت کا زعم باطل ہے، اور نہ ان کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت تھی، جو فضیلت اہل بدر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں میدان بدر میں حاضری کی وجہ سے حاصل ہوئی وہ فضیلت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہوئی کیوں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسروں کی طرح روانہ ہوئے تھے، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کو واپس کر دیا تھا، لہٰذا آپ کا بدر سے پیچھے رہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری میں تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا، اور اس طرح آپ اہل بدر کے ساتھ مال غنیمت، فضیلت اور اجز و ثواب میں شریک رہے۔ [2] عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ ایک شخص مصر سے حج کے لیے آیا اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا میں آپ سے ایک چیز سے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں اللہ کے واسطے آپ مجھے بتائیں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان بدر سے غائب رہے اور شریک نہ ہوئے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں لیکن بدر سے ان کا غائب ہونا اس وجہ سے تھا کہ آپ کی زوجیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر (رقیہ رضی اللہ عنہا ) تھیں جو بیمار تھیں، جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رکنے کا حکم دیا، اور فرمایا: تمہیں بدر میں شریک ہونے والے کے برابر اجر و ثواب اور حصہ ملے گا۔[3] ابووائل، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی وجہ سے پیچھے رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں ہمارے لیے حصہ مقرر فرمایا۔ اور زائدہ اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصہ مقرر کیا تو گویا وہ شریک رہا۔[4] اور عثمان رضی اللہ عنہ کا
Flag Counter