Maktaba Wahhabi

64 - 534
طاقت حاصل ہو، کیوں کہ فی الحال جنگ نے تمہیں کمزور کر دیا ہے اور سورماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے جو کفار کو ناگوار گزر رہی تھی، وہ آپ کی باتوں کو یہ کہہ کر ٹالتے جاتے تھے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں ہم نے سن لیا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ زبردستی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے، آپ واپس جائیں اور اپنے ساتھی سے کہہ دیں کہ وہ یہاں نہیں آسکتے۔ یہ موقف دیکھ کر ابان بن سعید بن العاص نے آپ کو خوش آمدید کہا اور پناہ دی اور کہا آپ اپنی مہم سے رکیں نہیں پھر وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور عثمان کو اپنے ساتھ سوار کر لیا اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں داخل ہوئے۔فرداً فرداً سرداران قریش سے ملاقات کی۔ ابو سفیان بن حرب، صفوان بن امیہ وغیرہم جن سے بلدح میں ملاقات کی تھی، اور وہ لوگ جن سے صرف مکہ میں مقالات ہوئی سب ہی آپ کی بات کو یہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ ’’محمد کبھی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔‘‘ [1] مشرکین نے عثمان رضی اللہ عنہ سے پیش کش کی کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کر لیں، لیکن آپ نے انکار کر دیا۔[2] عثمان رضی اللہ عنہ نے مستضعفینِ مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا، اور جلد مشکلات سے نجات پانے کی بشارت سنائی۔[3] اور ان سے زبانی پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیا جن میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجا تھا اور یہ کہا تھا کہ جو ذات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ پہنچا سکتی ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ آپ کو مکہ کے اندر داخل کر دے۔[4] ابھی آپ مکہ ہی میں اپنی مہم میں لگے ہوئے تھے کہ مسلمانوں میں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے، ان حالات کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشرکین سے قتال کے سلسلہ میں بیعت کی دعوت دی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپ کے ہاتھوں پر موت کی بیعت کی۔[5]صرف جد بن قیس نے اپنی منافقت کی وجہ سے بیعت نہ کی۔[6] ایک روایت میں ہے کہ یہ بیعت صبر کی تھی۔[7] اور ایک روایت میں ہے کہ عدم فرار کی بیعت تھی۔[8] لیکن ان روایات میں کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ موت کی بیعت کا مطلب صبر و عدم فرار کی بیعت ہے۔[9]
Flag Counter