اشارہ ہے کہ اصول کا تقویٰ فروع کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، نیز یہ کہ نیک لوگوں کے بچوں کی حفاظت کی جاتی ہے، جیسا کہ اس آیت سے پتہ چلتا ہے: (وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا) (الکہف: ۸۲) ’’دیوار کا قصہ یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچے ہیں جن کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن تھا، ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا۔‘‘ چنانچہ دونوں بچوں کی جان اور مال اپنے باپ کی برکت سے محفوظ رہا۔[1] ۱۰۔ تقویٰ ان اعمال کی قبولیت کا سبب ہے جن میں دنیا وآخرت کی نیک بختی ہے، فرمان الٰہی ہے: ( إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ) (المائدۃ:۲۷) ’’اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔‘‘ ۱۱۔ تقویٰ دنیا کے عذاب سے نجات کا باعث ہے۔ فرمان الٰہی ہے: (وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿١٧﴾ وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ) (فصلت:۱۷-۱۸) ’’رہے ثمود تو ہم نے ان کی بھی رہبری کی پھر بھی انھوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی جس کی بنا پر انھیں(سراپا) ذلت کے عذاب کی کڑک نے ان کے کرتوتوں کے باعث پکڑ لیا اور ہاں ایمان والوں اور پارساؤں کو ہم نے (بال بال) بچا لیا۔‘‘ ۱۲۔ گناہوں کو مٹا دینا جو عذاب جہنم سے نجات کا باعث ہے، نیز زیادہ ثواب دینا جو جنت میں اعلیٰ مقام ملنے کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا) (الطلاق:۵) ’’اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ مٹا دے گا، اور اسے بڑا بھاری اجر دے گا۔‘‘ ۱۳۔ جنت کی وراثت، چنانچہ متقی حضرات ہی جنت کے اہل اور اس کے زیادہ حقدار ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھی کے لیے جنت کو تیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا) (مریم:۶۳) |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |