Maktaba Wahhabi

129 - 411
ہاں اس سے بائبل مراد لینا توبالکل اس محبانہ مصرعہ کا مصداق ہے جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے آپ کے اس دعوے سے مجھے قرآن کے حق میں یہ عقیدہ پختہ ہوا کہ واقعی قرآن مجید عالم الغیب خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اُس کے علم میں تھا کہ پادری پال صاحب اس آیت {ذٰلِکِ الْکِتَابُ} کو بائبل پر لگائیں گے۔ اس لیے اُس نے اس کا جواب ایسا مخفی اشارہ سے دیا جو راسخ فی العلم کے سمجھنے اور ماہر قرآن کے قابل قدر ہے۔ سنیے! جو مضمون سورہ بقرہ کے شروع میں ہے اور جس عنوان سے ہے وہی مضمون اُسی عنوان سے سورہ سجدہ میں بیان کیا ہے مگر اس طرز سے کہ سورہ بقرہ والی آیت کی ایسی تفسیر ہوتی ہے کہ پادری صاحب کو جرأت نہ ہو سکے کہ اس آیت کو بائبل کے حق میں کہیں۔ پس ناظرین کرام غور سے سنیں۔ ارشاد ہے: { الٓمّٓ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ بَلْ ھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰھُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ} [السجدۃ: 1 تا 3] یعنی الٓمٓ کچھ شک نہیں کہ اس کتاب کا نزول اللہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔ کیا یہ مخالف لوگ کہتے ہیں اس (محمد رسول اللہ) نے اپنے پاس سے اسے بنایا۔ نہیں بلکہ یہ کتاب واقعی تیرے رب کی طرف سے ہے۔ تاکہ تو (اے رسول) اُس قوم کو سمجھائے جن کے پاس کوئی سمجھانے والاتجھ سے پہلے نہیں آیا تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ اس آیت کو ہم نے پادری صاحب کا جواب ان وجوہ سے سمجھا: ٭ شروع میں {الٓمّٓ } کا ہونا جیسے سورہ بقرہ میں۔ ٭ دونوں میں {لَا رَیْبَ فِیْہِ} کا ہونا۔
Flag Counter