یعنی اگرچہ یہ سچ ہے کہ ایک غیر فصیح کلمہ کی وجہ سے پوری سورت درجہ فصاحت سے خارج نہیں ہوتی لیکن اس کا کیا علاج کہ قرآن میں کلمات غیر فصیح کا ہونا تو درکنار رہا اگر قرآن میں ایک کلمہ بھی غیر فصیح ہو تو اس سے خدا کا جہل اور عجز ثابت ہوگا۔ حالانکہ خدا اس سے اعلیٰ اور بالا ہے۔ (مختصر معانی)۔ (سلطان التفاسیر، ص: 65، 66)
برہان:
بے شک یہ عبارت مختصر معانی میں ہے لیکن اگر آپ کو معلوم ہوتا یا آپ انصاف سے اس قول کو دیکھتے یا اس کے متعلق ’’مختصر‘‘ کے بعد ’’مطول‘‘ دیکھنے کی تکلیف فرماتے تو تصویر کا رخ یہ نہ ہوتا۔ خیر آپ سے جو ہو سکا آپ نے کیا۔ ہمارا جو فرض ہے ہم کرتے ہیں۔ صاحب مطول اس قول کو مردود قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قد سبق إلی بعض الأوھام أن اجتماع الحروف المتقاربۃ سبب للثقل المخل بفصاحۃ الکلمۃ، وأنہ لا یخرج الکلام المشتمل علی کلمۃ غیر فصیحۃ عن الفصاحۃ کما لا یخرج الکلام المشتمل علی کلمۃ غیر عربیۃ عن کونہ عربیا فلا تخرج سورۃ فیھا {اَلَمْ اَعْھَدْ} عن الفصاحۃ۔۔۔ الخ‘‘ (مطول بحث فصاحت)
’’بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ قریب المخرج حروف کا کسی جگہ جمع ہونے سے فصاحت میں خلل آتا ہے ،پس جس کلام میں کوئی ایک آدھ کلمہ ایسا غیر فصیح ہو توسارا کلام فصاحت سے نکل نہ جا ئے گا۔ جیسے وہ عربی کلام عربیت سے نکل نہیں جاتا جس میں کوئی ایک آدھ کلمہ غیر عربی ہو۔ پس جس سورۃ میں {اَلَمْ اَعْھَدْ} آیاہے وہ فصاحت سے خارج نہ ہوگی۔‘‘
|