Maktaba Wahhabi

316 - 411
کیا یہ واقعہ ایسا نہ تھاکہ اس کے ظہور کے بعد ساری دنیا مسیحی ہوجاتی لیکن ایسا ہوا یا کسی غیر مؤرخ نے اس واقعہ کو لکھا؟ نہیں۔ غالباً اس کا جواب یہی ہوگا: ’’جتنے کام یسوع نے کیے اگر وہ جدا جدا کیے جاتے تو میں گمان کرتا ہوں جو کتابیں اس موضوع پر لکھی جاتیں وہ دنیا میں نہ سما سکتیں۔‘‘ (انجیل یوحنا 21:25) گو یہ بیان مبالغہ کی حد تک پہنچتا ہے لیکن اتنا حصہ ضرور صحیح ہے کہ انبیاء اور مصلحین کے بہت سے واقعات اشاعت سے رہ جاتے ہیں۔ بندر سور بننے کا قصہ بھی اسی قسم سے ہے۔ خاص کر اس لیے کہ کسی نبی کے زمانے کا نہیں بلکہ ایک غیر مشہور کوردہ کا غیر مشہو واقعہ ہے پھر اگر صحف میں اس کا ذکر نہ ہوتو کیا تعجب ؟! ذبحِ بقرہ کی نسبت: بقرہ کی نسبت پادری صاحب نے چنداں تعرض نہیں کیا، صرف اتنا لکھا ہے: ’’ذبح بقرہ کا واقعہ جس طرح قرآن شریف میں بیان ہوا صحف مطہرہ میں مذکور نہیں۔‘‘ (سلطان التفاسیر، ص:222) برہان: جن لوگوں نے قرآن اور مروجہ تورات میں حضرت یوسف کا قصہ پڑھا ہے وہ جان سکتے ہیں کہ باوجود وحدتِ واقعہ کے دونوں کتابوں کے بیانات میں کتنا فرق ہے مگر اس اختلاف لفظی سے اصل واقعہ پر اثر نہیں پڑسکتا۔ ایک دانشمند دونوں کتابوں سے قصہ یوسفی کی اصلیت پاسکتا ہے اسی طرح ذبح بقرہ میں گو بظاہر اختلاف لفظی ہو مگر تاہم واقعہ کی صحت ملتی ہے جو پادری صاحب کی منقولہ عبارت میں بھی مضمر ہے۔ اللہ اعلم سر سید کا نظریہ: پادری صاحب نے اس موقع پر بھی سید احمد خان مرحوم کو یاد کیا ہے۔ سر سید احمد
Flag Counter