Maktaba Wahhabi

152 - 411
ہیں۔ پادری صاحب کے الزام تین ہیں: 1زبان سے اقرار۔ 2دل سے تصدیق۔ 3اعضاء سے عمل۔ غنیمت ہے ان تین الزامات میں سے دو الزاموں کا جواب خود ہی دے دیا کہ ’’مسلمان کتب مقدسہ کے متعلق پہلی دو باتوں پر تو عمل کرتے ہیں۔‘‘ اس لیے ہمیں ان الزامات کے دفع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں تیسرے الزام کا جواب دینا ہے۔ الزام یہ ہے کہ ’’لیکن تیسری بات پرعمل نہیں کرتے۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کے بھیجنے والے کو علم تھا کہ کسی زمانہ میں پادری صاحب اس پر اعتراض کر کے مسلمانوں کو مورد الزام بنائیں گے۔ اس لیے اُس نے ارشاد فرمادیا: { اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ} [الأعراف: 3] ’’یعنی اے مسلمانو! (ایمان اور تصدیق تو سب کی کرو جو کتاب تم سے پہلے اُتری ہے اور جو تمھاری طرف اُتری ہے۔ مگر) پیروی اُسی کی کرو جو تمھاری طرف (قرآن کی صورت میں) اُتری ہے۔ اور اس کے سوا کسی اور کی پیروی نہ کرو۔‘‘ مسلمان اس حکم کے ماتحت مامور ہیں کہ ایمان سب پر رکھیں اور عمل صرف قرآن پر کریں۔ فرمایئے مسلمان باصطلاح قرآن متقی ہوئے یا نہ ؟ رہی آپ کی اصطلاح سوا س کی مسلمانوں کو پرواہ نہیں۔ کیونکہ عیسائی اصطلاح میں تو متقی کے لیے ضروری ہے کہ ایک بے گناہ کو عام انسانوں کی وجہ سے مصلوب ہو کر ملعون اور جہنمی سمجھیں۔ (پولوس کا خط) استغفراللہ! سو ایسے تقوے کے لحاظ سے مسلمان بے شک متقی نہیں۔ ہم پادری صاحب کو تصدیق اور تعمیل کی مثال دیتے ہیں۔
Flag Counter